امت مسلمہ کے بنیادی عقائد میں سے ایک مسلمہ عقیدہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو جسد عنصری کے ساتھ زندہ حالت میں آسمانوں کی طرف اٹھالیاتھا۔ وہ چوتھے آسمان پر اسی حالت و کیفیت میں موجود ہیں۔ قیامت سے پہلے جب اﷲ تعالیٰ کو منظور ہوگا آپ زمین پر ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔
پس منظر
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھائے جانے کی وجہ معلوم کرنے کے لیے ہمیں بالاختصار ان کی زندگی کا جائزہ لینا ہوگا۔ تاکہ ساری بات خوب ذہن نشین ہوسکے۔
مختصر احوال
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے جلیل القدر اور اولوالعزم رسولوں میں سے ہیں۔ جس طرح ہمارے رسول محمد ﷺ پوری انسانیت کیلئے خاتم النبین ہیں اسی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام انبیائے بنی اسرائیل کے خاتم النبیین یعنی آخری نبی ہیں۔
خصوصیت
آپ کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے معجزانہ طور پر آپ کو والد کے بغیر صرف بطن مادر سے پیدافرمایا۔
حلیہ مبارکہ
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ معراج کے موقعہ پر میری عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ ان کا قددرمیانہ اور رنگت سرخ وسفید تھی۔ بدن اس قدر صاف اور اجلاتھامعلوم ہوتاتھاکہ ابھی نہاکر فارغ ہوئے ہیں ۔ آپ کی زلفیں کندھوں تک دراز تھیں۔
د ین کی تبلیغ و اشاعت میں انہماک
آپ نے نہ شادی کی اورنہ بودوماند کے لیے گھر بنایا۔ قریہ قریہ، گاؤں گاؤں گھومتے پھرتے، اﷲ کا دین پھیلاتے اور دین حق کی دعوت وتبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے۔ جہاں رات ہوجاتی وہیں کسی سامانِ راحت کے بغیر شب بسر کرلیتے۔
چونکہ ذات اقدس سے اﷲ کی مخلوق کی جسمانی و روحانی شفایابی ہوتی تھی۔ اس لیی آپ جدھر جاتے لوگوں کا انبوہ عقیدت سے جمع ہوجاتا اور وہ والہانہ محبت کے ساتھ ان پر نثار ہونے کو تیاررہتا۔
یہود کی عداو ت اور سازش
یہود کو اس دعوت حق کے ساتھ جو عناد تھا اس نے آپ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو انتہائی حسد اور سخت خطرے کی نگاہ سے دیکھا۔
جب ان کے مسخ شدہ قلوب کسی بھی طرح اسے برداشت نہ کرسکے تو ان کے سرداروں اورمذہبی پیشوائوں نے ان کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ طے پایاکہ ان کے خلاف جیسے بھی ممکن ہو کامیابی حاصل کی جائے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ بادشاہِ وقت کو ان کے خلاف مشتعل کرکے ان کو تختہ دار پر لٹکادیاجائے۔
چنانچہ انہوں نے بادشاہ کے حضور شکایت کی کہ عالی جاہ!
یہ شخص نہ صرف ہمارے مذہب کے لیے بلکہ آپ کی حکومت واقتدار کے لئے بھی خطرے کانشان ہے۔ انہوں نے بہت سی باتیں بناکر بادشاہ کو آمادہ کرلیا کہ مسیح علیہ السلام کو گرفتار کرکے شاہی دربار میں مجرم کی حیثیت سے پیش کیاجائے۔
اب وہ کسی ایسے مناسب موقع کی تاک میں رہنے لگے کہ ان کو کسی خلوت وتنہائی کے ایسے موقع پر گرفتار کیاجائے کہ عام لوگوں میں ہیجان پیدانہ ہو۔ ادھر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کی مخالفت اور ریشہ دوانیوں کا احساس ہوا اور انہیں یقین ہوگیاکہ اب بنی اسرائیل کے کفر و عناد اور مخالفت کی سرگرمیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ وہ میرے قتل کے درپے ہیں۔ تو انہوں نے اپنے حواریوں کو ایک مکان میں جمع کیااور ساری صورت حال ان کے سامنے رکھی اور ان کو بتلایا کہ امتحان کی گھڑی سر پر ہے۔ کڑی آزمائش کا وقت ہے ۔ حق کو مٹانے کی سازشیں عروج پرہیں۔ معلوم ہوتاہے کہ اب میں تمہارے درمیان زیادہ عرصہ نہیں رہ سکوں گا۔
اس لئے میرے بعد دین حق پر استقامت، اس کی نشر و اشاعت اور نصرت کی ذمہ داری تم لوگوں کے ساتھ وابستہ ہونے والی ہے۔ بتلاؤ کہ اﷲ کی راہ میں تم میں سے کون کون وفادار مددگار ہے۔ سب حواریوں نے ایمانی جوش و صداقت سے جواب دیاکہ ہم سب اﷲ کے دین کے وفادار و مددگار ہیں۔ ہم دل کی گہرائیوں سے اﷲ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اپنی ایمانی صداقت پر آپ کو گواہ ٹھہراتے ہیں اور یہ کہنے کے بعد اپنی بات کو یہیں ختم نہیں کردیابلکہ اﷲ تعالیٰ سے بھی دعاکی کہ یااﷲ ! ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں تو ہمیں اس پر استقامت عطافرما ، اور ہمیں اپنے دین کے مددگاروں میں شامل کرلے۔ انہی حالات کی طرف قرآن مجید کی درج ذیل آیات میں اشارہ کیاگیاہے:
فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ آَمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (52) رَبَّنَا آَمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ (53) (آل عمران)
جب عیسیٰ علیہ السلام نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر وانکار پر آمادہ ہیں تو انہوں نے کہا اﷲ کی راہ میں کون میرامددگار ہوگا؟ حواریوں نے جواب دیاکہ ہم ہیں اﷲ کے دین کے مددگار۔ ہم اﷲ پر ایمان لائے،۔ آپ گواہ رہیں کہ ہم اﷲ کے آگے سرجھکانے والے ہیں اے ہمارے رب! تونے جو فرمان نازل کیاہم نے اسے مان لیااور رسول کی پیروی کی۔ تو ہمارے نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔
نیز ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ فَآَمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَتْ طَائِفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آَمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ (14) (الصف)
ترجمہ:۔ ایمان والو! اﷲ کے دین کے مددگاربن جاؤ جس طرح عیسیٰ بن مریم نے اپنے حواریوں سے کہاتھا: کون ہے اﷲ کی طرف بلانے میں میرامددگار؟ حواریوں نے جواب دیاتھا ہم ہیں اﷲ کے دین کے مددگار۔ بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لے آیا اور دوسرے گروہ نے انکار کردیاتھا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمن کے مقابلے میں مددکی اور وہی غالب رہے۔
اﷲ تعالیٰ نے واضح کیاکہ جب یہ لوگ اپنی خفیہ تدبیروں میں سرگرم عمل تھے تب ہم نے بھی اپنی قدرت کا ملہ سے فیصلہ کرلیاکہ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ان مخالفین کی کوئی تدبیر کامیاب نہ ہونے دی جائے گی ۔
جیساکہ ارشاد ہے:
وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (54) (آل عمران)
اور بنی اسرائیل نے عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف خفیہ تدبیریں کیں ۔ ان کے بالمقابل اﷲ تعالیٰ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اﷲ سب سے بڑھ کرہے۔
آخر بنی اسرائیل کے کاہنوں اور سرداروں نے عیسیٰ علیہ السلام کا ایک بند مکان میں محاصرہ کرلیا۔ اس موقع پر اﷲ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو بشارت دی کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں میں آپ کو پوری طرح اپنی حفاظت میں لے لوں گا۔ اور آپ پوری عمر پائیں گے اور یہ لوگ آپ کو قتل نہیں کرسکیں گےاور میں آپ کو کافروں (بنی اسرائیل) کے شر سے محفوظ رکھوں گا اور آپ کی پیروی کرنے والوں کو آپ کے معاندین و مخالفین پر قیامت تک کے لئے غلبہ دوں گا پھر سب کو میری طرف ہی آنا ہے۔ پھر میں ان سب باتوں کے بارے میں فیصلے کردوںگا جن میں آج تم جھگڑ رہے ہو۔
جیساکہ ارشاد ہے:۔
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (55) (آل عمران)
اور جب اﷲ تعالیٰ نے کہا اے عیسیٰ! میں آپ کو پوری طرح اپنی حفاظت میں لینے والا اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور جن لوگوں نے آپ کا انکار کیاہے میں آپ کو ان کی معیت اور ان کے گندے ماحول سے آ پ کو پاک کرنے والاہوں۔ اور آپ کی پیروی کرنے والوں کو قیامت تک ان لوگوں پر بالادست رکھوں گا جنہوں نے آپ کا انکار کیاہے پھر آخر کارتم سب نے میری طرف ہی آناہے اس وقت میں ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن کے متعلق تمہارے درمیان اختلاف رہا۔
حواریین عیسیٰ علیہ السلام کے ان پیروکاروں کو کہاجاتاہے جو ان پر ایمان لائے اور ان کے ساتھی اور مددگار بنے۔ ان کی تعداد ۱۲ بیان کی جاتی ہے (احسن البیان ص:۳۳۶)
یہود کی سازش، اس کی ناکامی اور اﷲتعالیٰ کی خفیہ حفاظتی تدبیر
جب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کویہود کی سازش کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنے حواریوں کو جن کی تعداد ۱۲ یاسترہ تھی جمع کیا اور فرمایا کہ کیا تم میں سے کو ئی میری جگہ قتل ہونے کے لئے تیارہے تاکہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس کی شکل و صورت مجھ جیسی بنادی جائے۔ ایک نوجوان اس کے لیے تیار ہوگیا۔ چنانچہ عیسیٰ علیہ السلام کو وہاں سے اٹھالیاگیا۔ بعد میں یہودی آئے اور انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے ہم شکل اس نوجوان کو لے جاکر سولی پر چڑھادیا۔
یہودی یہ سمجھتے رہے کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو سولی چڑھادیاہے۔ درآں حالیکہ عیسیٰ علیہ السلام وہاں موجود ہی نہ تھے۔ وہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھالئے گئے۔ (تفسیر ابن کثیر ، تفسیر فتح القدیر، تفسیر احسن البیان ص: ۲۷۲ حاشیہ ۲)
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا (157) بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (158) وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (159) (النساء)
(اور ہم نے بنی اسرائیل پر اس لئے بھی لعنت کی کہ) انہوں نے کہا کہ ہم نے مسیح، اﷲ کے رسول عیسیٰ بن مریم کو قتل کردیاہے۔ حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ تو اس کو قتل کیا اور نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ ان پر معاملہ مشتبہ کردیاگیاتھا اور جن لوگوں نے ان کے بارے میں اختلاف کیاہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں۔ اس کے بارے میں ان کے پاس کوئی حتمی علم نہیں ہےبلکہ وہ محض گمان کی پیروی کررہے ہیں۔ یقینا انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیابلکہ اﷲ نے اس کو اپنی طرف اٹھالیا۔ اﷲ زبر دست طاقت رکھنے والا اور صاحب حکمت ہے اور اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جو اس کی یعنی مسیح علیہ السلام کی وفات سے پہلے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے گا اور وہ (مسیح) قیامت کے دن ان لوگوں کے خلاف گواہ ہوگا۔
مولانا مودودوی صاحب رقم طراز ہیں:
کہ ان آیات میں اختلاف کرنے والوں سے عیسائی مرادہیں۔ ان میں مسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے پر کو ئی ایک متفق علیہ قول نہیں ہے بلکہ بیسیوں اقوال ہیں۔ جن کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اصل حقیقت ان کے لئے مشتبہ ہی رہی۔
ان میں سے کوئی کہتاہے کہ صلیب پر جسے چڑھایاگیا وہ مسیح نہ تھا بلکہ مسیح کی شکل میں کوئی اور تھا جسے یہودی اور رومی سپاہی ذلت کے ساتھ صلیب دے رہے تھے اور مسیح وہیں کہیں کھڑا ان کی حماقت پر ہنس رہاتھا۔
کوئی کہتاہے کہ صلیب پر چڑھا یا تو مسیح ہی کو گیاتھا مگر ان کی وفات صلیب پر نہیں ہوئی بلکہ ان کو صلیب سے اتارے جانے کے بعد ان میں جان باقی تھی۔
کوئی کہتاہے کہ انہوں نے صلیب پر وفات پائی۔ پھر وہ جی اٹھے اور کم و بیش دس مرتبہ اپنے مختلف حواریوں سے ملے اور باتیں کیں۔
کوئی کہتاہے کہ صلیب والی موت مسیح کے جسم پر واقع ہوئی اور وہ دفن ہوا مگر الوہیت کی روح جو اس میں تھی وہ اٹھالی گئی۔
کوئی کہتاہے کہ مرنے کے بعد مسیح علیہ السلام جسم سمیت زندہ ہوئے اور جسم سمیت اٹھالئے گئے۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے پاس حقیقت کا علم ہوتا تو اتنی مختلف باتیں ان میں مشہور نہ ہوتیں۔(تفہیم القرآن سورۃالنساء حاشیہ نمبر ۱۹۴)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اﷲ لکھتے ہیں:
"عیسیٰ علیہ السلام کے ہم شکل کو قتل کرنے کے بعد ایک گروہ تو یہ کہتارہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کردیاگیا جب کہ دوسرا گروہ جیسے یہ اندازہ ہوگیاتھا کہ مصلوب شخص عیسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔ وہ ان کے قتل اور مصلوب ہونے کا انکارکرتارہا۔"
بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اوپر جاتے ہوئے دیکھابھی تھا۔
بعض کہتے ہیں کہ ان کے اس اختلاف سے وہ اختلاف مرادہے جو خود عیسائیوں کے نسطورہ فرقے نے کا کہ عیسیٰ علیہ السلام جسم کے لحاظ سے تو سولی دے دیئے گئے لیکن لاہوتی(خدائی) اعتبار سے نہیں۔
ملکانیہ فرقے نے کہا کہ یہ قتل و صلب، ناسوت (انسانی اورجسمانی) اور لاہوت (خدائی) دونوں اعتبار سے مکمل ہواہے۔(فتح القدیر) بہر حال وہ لوگ اختلاف ، تردّد اور شک کے شکار رہے۔ ( احسن البیان ص: ۲۷۲،حاشیہ ۳)
اس ساری تفصیل سے واضح ہوگیاکہ یہودی، عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے یاسولی چڑھانے میں کامیاب نہ ہوسکے(احسن البیان ص: ۲۷۲حاشیہ ۱)
یہ آیات نص صریح ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ حالت میں آسمان پر اٹھالیاتھا۔ (احسن البیان ص: ۲۷۲حاشیہ ۴)
ابورجاء رحمہ اﷲ کا بیان ہے کہ حسن رحمہ اﷲ نے : وَإِن مِّنۡ أَهۡلِ الۡکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤۡمِنَنَّ بِهٖ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
کی تفسیر میں فرمایاکہ: "عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پہلے پہلے تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے اور وہ اس وقت اﷲ تعالیٰ کے ہاں(آسمانوں پر) زندہ موجودہیں۔ جب وہ زمین پر نزول فرماہوں گے تو سب لوگ ان پر ایمان لے آئیں گے۔" (تفسیر ابن کثیر، جلد۱، ص:۵۷۶)
ایک شخص نے حسن بصری رحمہ اﷲ سے دریافت کیاکہ: وَإِن مِّنۡ أَهۡلِ الۡکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤۡمِنَنَّ بِهٖ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ کی تفسیر کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھالیاتھا وہ قیامت سے پہلے ان کو زمین پر بھیجے گا اور پھر سب مومن وفاجر ان پر ایمان لے آئیں گے۔(تفسیر ابن کثیر، جلد ۱ص: ۵۷۶)
عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے کہاہے کہ اگر کسی یہودی پر تلوار کا وار بھی کیاگیاتو جب تک وہ ایمان نہ لائے گا اس کی روح نہ نکلے گی۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد۱ ص:۵۷۶)
نیز سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر اﷲ تعالیٰ نے جو انعامات کئے ان کا ذکر کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ ان سے یہ بھی فرمائے گا :
تُکَلِّمُ النَّاسَ فِیۡ الۡمَهۡدِ وَکَهۡلاً
تو لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتاتھا اور بڑی عمر کو پہنچ کربھی ۔
گہوارے میں آپ کا لوگوں سے بات کرنا خرق عادت اور آپ کا معجزہ تھا۔ کسی کا بڑی عمر میں بات کرنا کوئی اچےبھ کی بات نہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کا بڑی عمر میں لوگوں سے ہم کلام ہونا اور باتیں کرنا اسی صورت میں مختلف ہوسکتاہے کہ آپ مدت مدید کے بعد تشریف لاکر لوگوں سے باتیں کریں۔
عیسیٰ علیہ السلام پر کئے گئے انعامات کے ضمن میں ہی اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے یہ بھی فرمائے گا :
وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنْكَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ (110) (المائده)
اور یاد کرو جب میں نے بنی اسرائیل کے شر سے اور برے ارادوں سے آپ کو محفوظ رکھا جب آپ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تھے تو ان میں سے منکرین حق نے کہاتھا کہ یہ سب جادوگری کے سواکچھ نہیں۔
خلاصۃ المرام ایں کہ اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہودنے اﷲ کے جلیل القدر رسول ، روح اﷲ نبی، المسیح عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے اپنے رسول کو زندہ حالت میں جسد عنصری کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھاکران کو بچا لیااور ان کے دشمن ناکام ونامراد رہے۔ عیسیٰ علیہ السلام سے متعلقہ مذکورۃ الصدر آیات کے مندرجہ ذیل فقرات قابل ملاحظہ ہیں۔
۱۔ مَکْرو وَمَکْرُاﷲِ ۔۔۔لوگوں نے ان کے خلاف سازشیں کیں اور ان کے بالمقابل اﷲ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی۔
۲۔إِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡک ۔ اے عیسیٰ میں آپ کو پوری طرح اپنی حفاظت میں لینے والاہوں۔
۳۔َ وَرَافِعُکَ إِلَیَّ۔ اور آپ کو اپنی طرف اٹھانے والاہوں۔
۴۔ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِيۡنَ کَفَرُوا٘ ۔ آپ کو ان لوگوں کی معیت اور ان کے گندے ماحول سے پاک کرنے والاہوں۔
۵۔ وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ
(اور ہم نے بنی اسرائیل پر اس لئے بھی لعنت کی کہ) انہوں نے کہا کہ ہم نے اﷲ کے رسول مسیح، عیسیٰ بن مریم، کو قتل کردیاہے حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ ان پر معاملہ مشتبہ کردیاگیاتھا۔
۶۔ وَمَا قَتَلُوہُ یَقِیۡناً بَل رَّفَعَهُ الله ُ إِلَیۡهِ۔
ان لوگوں نے یقینا ان کو قتل نہیں کیا بلکہ ان کو تو اﷲ نے اپنی طرف اٹھالیاتھا۔
۷۔ وَکَانَ اللهُ عَزِیۡزاً حَکِیۡماً۔ اور اﷲ زبردست غالب حکمت والاہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ذکرکرنے کے بعد ان الفاظ کا ذکرکرنا واضح ثبوت ہے کہ اس واقعہ سے اﷲ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ اور حکمت بالغہ کا غیر معمولی ظہور ہوا۔
۸- وَإِنۡ مِّنۡ أَهۡلِ الۡکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤۡمِنَنَّ بِهٖ۔۔الخ
اور تمام اہل کتاب مسیح کی وفات سے پہلے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔
۹۔ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِيۡ الۡمَهۡدِ وَکَهۡلاً ۔ تو لوگوں سے گہوارے میں اور بڑی عمر میں پہنچ کر بھی باتیں کرتاتھا۔
۱۰- وَإِذۡکَفَفۡتُ بَنِیۡ إِسۡرَائِیۡلَ عَنک۔
اور یادکرو جب میں نے آپ کو بنی اسرائیل کے شر سے بچایا۔
نیز قران کریم میں ارشاد ہے:
وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (61)
اور یقینا عیسیٰ علیہ السلام (کانزول فرماہونا) علامات قیامت میں سے ہے تم اس (قیامت ) کے بارے میں تردّد نہ کرو اور میری پیروی کرو۔ یہی سیدھا (صحیح ) راستہ ہے۔
اکثر مفسرین کے نزدیک اس کا مطلب ہے کہ قیامت کے قریب ان کا آسمان سے نزول ہوگا۔ جیساکہ صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے ۔ ان کا یہ نزول اس بات کی علامت ہوگاکہ اب قیامت قریب ہے۔ (احسن البیان۔ص:۱۳۹ ، حاشیہ ۱)
قرآن کریم کی یہ تمام آیات نص صریح ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ حالت میں آسمان پر اٹھالیاتھا۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور محمد ﷺ کے احوال میں مناسبت و مشابہت ۔
عیسیٰ علیہ السلام
(۱) عیسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان کی مخالفت اور تکذیب کی ۔
(۲) عیسیٰ علیہ السلام کے معاندین نے ان کو قتل کرنے کی سازش کی اورمکان کا محاصرہ کیا۔
(۳)اﷲ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھا ۔
(۴) عیسیٰ علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے حکم سے زمین سے آسمان کی طرف ہجرت کرگئے۔
(۵)عیسیٰ علیہ السلام اپنی دعوت دنیاتک پہنچا چکے تھے ۔ اس لئے ان کو ہجرت ارضی کے بجائے سماوی ہجرت پیش آئی۔
(۶) عیسیٰ علیہ السلام اپنے دور کے مسیح ضلالت (دجال) کو قتل کریں گے۔
(۷) عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اسی شہر دمشق میں ہوگا جہاں سے اپنی قوم کی سازشوں کے نتیجے میں ان کو سماوی ہجرت پیش آئی تھی۔
محمد رسول اﷲ ﷺ
(۱) محمد ﷺ کی قوم نے بھی ان کی تکذیب کی اور مخالفت میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔
(۲)محمد ﷺ کے ساتھ بھی بعینہٖ یہی صورت حال پیش آئی۔
(۳) اﷲ تعالیٰ نے محمد ﷺ کی بھی مکمل حفاظت فرمائی۔
(۴) محمدﷺ نے بھی اﷲ کے حکم سے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔
(۵)آپﷺ کی بعثت عامہ تھی۔ دین کی تبلیغ کے سلسلہ میں آپ کاکام ابھی باقی تھا اور کرہ ارض پر آپ کا قیام ضروری تھا اس لئے آپ کو مدینہ منورہ کی طرف ارضی ہجرت پیش آئی۔
(۶)آپ نے اپنے مخالف امیہ بن خلف کو اپنے نیزے کے وار سے جہنم رسیدکیا۔
(۷) محمدﷺ کو بھی ہجرت کے بعد فتح مکہ کی صورت میں اپنے وطن پر قدرت وغلبہ عطافرمایاگیاتھا۔
نزول عیسیٰ علیہ السلام ، احادیث کی روشنی میں
(۱) سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے، رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عنقریب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام تمہارے درمیان ایک عادل حکمران کی حیثیت سے نزول فرماہوں گے ۔ وہ صلیب کو توڑ کر (اسکاخاتمہ کر) ڈالیں گے۔ خنزیر کو قتل کردیں گے۔ جزیہ کو ختم کردیں گے۔ اور مال ودولت کی اس قدرریل پیل ہوجائے گی کہ کوئی اسے لینے کو تیار نہ ہوگا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: تم چاہوتو یہ آیت پڑھ کردیکھ لو :
وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (159) (النساء)
اور اھل کتاب میں سے کوئی بھی ایسانہ ہوگا جو اس کی یعنی مسیح علیہ السلام کی وفات سے پہلے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے گا اور وہ (مسیح) قیامت کے دن ان لوگوں کے خلاف گواہ ہوگا ۔ (صحیح البخاری ، کتاب الانبیاء ، حدیث:۳۴۴۸ ۔باب نزول عیسیٰ بن مریم صحیح مسلم، باب بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً)
(۲) سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کابیان ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
" اﷲ کی قسم عیسیٰ بن مریم ایک عادل حکمران کی حیثیت سے تشریف لائیں گے۔ وہ صلیب کو توڑ کر اس کا خاتمہ کردیں گے۔ خنزیر کو قتل کرڈالیں گے، جزیہ کا خاتمہ کردیں گے۔ اونٹوں کا استعمال متروک ہوجائے گا، اوران پر سواری یاباربرداری نہ ہوگی، لوگوں کا آپس میں غصہ، ناراضگی اوربغض وعناد بالکل ختم ہوجائے گا۔ وہ مال و دولت کے لئے لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے تو دولت کی کثرت کی وجہ سے کوئی آدمی دولت لینے کے لئے آمادہ نہ ہوگا۔"(صحیح مسلم، باب بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً)
(۳)سیدنا حذیفہ بن اسید غفاری رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن ہم آپس میں قیامت کے متعلق گفتگو کررہے تھے کہ نبی ﷺ تشریف لائے آپ نے دریافت فرمایا: کیسامذاکرہ ہورہاہے؟ ہم نے عرض کیا کہ ہم قیامت کے متعلق گفتگو کررہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک بپانہ ہوگی جب تک تم اس سے پہلے دس بڑی بڑی نشانیاں نہ دیکھ لوگے۔ آپ نے ان میں سے ایک نشانی ’’نزول عیسیٰ بن مریم علیہما السلام‘‘ بیان فرمائی۔(صحیح مسلم ، کتاب الفتن)
(۴) سیدنا نواس ابن سمعان رضی اﷲ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے کہ دجّال کا فتنہ ظہور پذیر ہوچکا ہوگا اور وہ لوگوں کو شعبدے دکھا دکھاکر اپنی طرف مائل اور کفر میں لے جارہاہوگا۔ اسی دوران اﷲ تعالیٰ مسیح ابن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا ۔ وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارہ پر نزول فرماہوں گے، زرد رنگ کے دوکپڑوں(چادروں) میں ملبوس ہوں گے، اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے کاندھوں پر رکھے ہوں گے ۔ سرکو جھکائیں گے تو پانی کے قطرے گریں گے۔ اور جب سرکو اوپر کی طرف اٹھائیں گے تو اس سے صاف شفاف پانی کے قطرے سفید موتیوں کی طرح نظر آئیں گے۔ ان کی سانس جس کا فر تک جائے گی وہ مرتاچلاجائے گا اور ان کی سانس کی ہوا وہاں تک جائے گا جہاں تک ان کی نگاہ جائے گی ۔ وہ دجّال کا پیچھا کرتے ہوئے اسے (دمشق کی فصیل کے ) ’’باب لُدّ‘‘ کے قریب جاکر قابو کرکے اسے قتل کرڈالیں گے۔(صحیح مسلم، باب ذکر الدجال)
(۵) سیدنا عبداﷲ بن عمروبن العاص رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے رسو ل اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت سے پہلے پہلے دجّال کا ظہور ہوگا۔ وہ چالیس (سال ، مہینے یادن کا و ضاحت نہیں) کا عرصہ گذارے گا۔ اس کے بعد اﷲ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو بھیجے گا۔ ان کا حلیہ عروہ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کا ساہوگا۔ وہ (عیسیٰ علیہ السلام)اس (دجّال) کا پیچھا کرکے اسے قتل کردیں گے۔ اس کے بعد لوگ سات سال کا عرصہ اس قدر خوشی سے گزاریں گے کہ دو آدمیوں کے درمیان بغض وعداوت نہ ہوگی۔(صحیح مسلم، باب ذکرالدجال)
(۶) سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عیسیٰ بن مریم علیہما السلام ’’فج الروحاء‘‘ کے مقام پر حج (افراد) یاعمرہ یادونوں(یعنی حج تمتّع) کا تلبیہ پکاریں گے۔(صحیح مسلم، الحج، باب جواز التمتع فی الحج والقران)
(۷) سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا تم اس وقت کس حال میں ہوگے جب عیسیٰ بن مریم تمہارے درمیان (آسمان) سے نزول فرماہوں گے اورتمہاراامام تم ہی میں سے (یعنی اسی امت کا ایک فرد) ہوگا۔(صحیح مسلم، باب بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً)
(۸)سیدنا جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی ﷺ کو فرماتے سنا کہ میری امت میں قیامت تک ایک ایساگروہ موجود رہے گا جو حق کی خاطر قتال کرتا رہے گا۔ قیامت تک غالب رہے گا۔ تاآنکہ عیسیٰ ابن مریم علیہماالسلام(آسمان سے) نزول فرماہوں گے تو مسلمانوں کا امیر (امام مہدی) ان سے کہے گا کہ آئیں نماز پڑھائیں۔ تو وہ فرمائیں گے کہ نہیں۔ تم ہی میں سے کوئی لوگوں پر امیر (امام) ہوگا۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس امت کو اعزاز دیاجائے گا۔ (صحیح مسلم، بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً)
(۹) سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے (کہ قیامت سے پہلے ایک ایسا وقت آئے گا) کہ لوگ نماز کی صفیں درست کررہے ہوں گے ۔ نماز کے لئے اقامت کہی جائے گی۔ اسی دوران عیسیٰ بن مریم علیہما السلام آسمان سے نزول فرماہوں گے۔ اس وقت امت محمدیہ کے ایک فرد(امام مہدی) نماز پڑھائے گا اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام امت کی قیادت فرمائیں گے۔ انہی دنوں دجّال کا ظہور ہوگا۔ اﷲ کا دشمن (دجّال) انہیں دیکھے گاتو وہ اس طرح پگھلنے لگے گا جیسے پانی میں نمک پگھل جاتاہے ۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام اسے یونہی چھوڑدیں گے تب بھی وہ ہلاک ہوجائے گا۔ تاہم اﷲ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں دجّال کو قتل کرائے گا۔(صحیح مسلم ، کتاب الفتن)
(۱۰) سیدنا عبداﷲ بن عمر و رضی اﷲ عنہما کا بیان ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایاکہ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام زمین پر نزول فرماہوں گے ، نکاح کریں گے، ان کے ہاں اولادہوگی وہ (کُل) پنتالیس سال عمر پائیں گے۔ بعدازاں ان کی وفات ہوگی۔ اور وہ میرے ساتھ میری قبر میں مدفون ہوں گے۔ قیامت کے دن میں اور عیسیٰ علیہ السلام ایک ہی قبر سے ابوبکر و عمر رضی اﷲعنہ کے درمیان اٹھیں گے۔ (الوفاء لابن الجوزی - مشکوٰۃ المصابیح، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام۔حدیث نمبر ۵۵۰۸)
(۱۱) ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا بیان ہے ، میں نے عرض کیا اﷲ کے رسول! میراخیال ہے کہ میں آپ کے بعد کچھ عرصہ زندہ رہوں گی تو کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ مجھے آپ کے پہلو میں دفن کردیاجائے ؟ آپ نے فرمایا میں تمہیں اس کی اجازت کیسے دے سکتاہوں۔ وہاں تو میری، ابوبکر ، عمر ، عیسیٰ ابن مریم علیہماالسلام کی قبور ہی کی جگہ ہوگی۔ (منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد جلد۶ص:۵۷)
(۱۲) سیدنا عبد اﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ تورات میں محمد ﷺ کی صفات کے ضمن میں یہ بھی مکتوب ہے کہ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام ان کے قریب مدفون ہوں گے۔ ابومودود(راوی) نے بیان کیاکہ بیت عائشہ رضی اﷲ عنہا میں ایک قبر کی جگہ اب بھی باقی ہے۔ (جامع ترمذی مع تحفۃ الاحوذی جلد۴ ص: ۲۹۵ کتاب لمناقب باب۳)
(۱۳) سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا: انبیاء ان بھائیوں کی طرح ہیں جن کے باپ ایک اورمائیں مختلف ہوں۔ بنیادی طور پر ان سب کا دین ایک ہی ہے۔ میں باقی لوگوں کی نسبت عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام کے قریب ترہوں۔ کیونکہ ان کے اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں۔ وہ (دوبارہ) دنیا میں آنے والے ہیں۔ تم انہیں دیکھتے ہی پہچان لوگے۔ ان کا قددرمیانہ، رنگ سرخی مائل گوراہوگا ، وہ زرد لباس میں ملبوس ہوں گے، یوں محسوس ہوگا کہ ان کے سرسے پانی کے قطرے گررہے ہیں اگرچہ اسے پانی نہ لگا ہوگا، وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے، جزیہ کا خاتمہ کردیں گے اور لوگوں کو حقیقی دین اسلام کی طرف بلائیں گے اﷲ تعالیٰ ان کے زمانے میں (ان ہی کے ہاتھوں ) دجّال کا خاتمہ کرے گا۔ زمین پر مکمل امن، سکون ہوگااور اس قدرآسودگی ہوگی کہ شیر اور اونٹ، چیتے اور گائے، بھیڑ اور بکریاں بے خوف وخطر اکٹھے چرتے ہوں گے، بچے سانپوں کے ساتھ کھیلتے ہوں گے اور سانپ ان کو کچھ بھی نہ کہیں گے ۔ عیسیٰ علیہ السلام زمین پر چالیس برس گزاریں گے اس کے بعد ان کی وفات ہوگی ، مسلمان ان کی نماز جنازہ اداکریں گے اور پھر ان کی تدفین عمل میں آئے گی۔(تفسیر ابن کثیر جلد۱ ص:۵۷۸ ۔سنن ابی داؤد ، الفتح الربانی ترتیب مسند احمدجلد۱۹ ص: ۱۴۳ مسنداحمد جلد ۲ ص: ۴۳۷)
خلاصہ :
علامات قیامت میں سے ایک بڑی علامت مسیح ہدایت سیدنا عیسییٰ مسیح علیہ السلام کا ملأ اعلیٰ سے نزول ہے جس کی تفصیلات یہ ہیں۔
مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان سخت معرکہ جنگ بپاہوگا۔ مسلمانوں کی قیادت وامامت رسول ﷺ میں سے محمد بن عبداﷲ نامی ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہوگی جس کا لقب(مہدی) ہوگا۔ اس معرکہ آرائی کے دوران ہی مسیح ضلالت (دجّال) کا خروج ہوگا۔ یہ نسلاً یہودی اورشکلاً یک چشم ہوگا۔ کرشمۂ قدرت سے اس کی پیشانی پر’’ ک ف ر ‘‘ یعنی کافر لکھاہواہوگا جسے اہل ایمان اپنی ایمانی فراست سے پڑھیں گے اور اس کے دجل وفریب سے آگاہ ہوکر اس سے محتاط رہیں گے۔ وہ اوّلاً خدائی کا دعویٰ کرے گا اور شعبدہ بازوں کی طرح شعبدے دکھاکرلوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے گا مگر اس سلسلہ کو کامیاب نہ دیکھ کر کچھ عرصہ بعد مسیح ہدایت(عیسیٰ علیہ السلام) ہونے کا مدعی ہوگا۔ یہ دیکھ کریہودی تو بکثرت بلکہ قومی حیثیت سے اس کے پیروکار ہوجائیں گے۔ اور اس کی وجہ یہ ہوگی کہ یہودی مسیح ہدایت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کرکے ان کے قتل کا ادعا کرچکے ہیں اور مسیح ہدایت کی آمد کے آج تک منتظر ہیں۔ اسی حالت میں ایک روز دمشق(شام) کی جامع مسجد میں مسلمان منہ اندھیرے یعنی نماز فجر کے وقت نماز کے لئے جمع ہوں گے ، نماز کی اقامت ہورہی ہوگی۔ اورامام مہدی موعود امامت کے لئے مصلّی پر پہنچ چکے ہوں گےکہ اچانک ایک آواز سب کو اپنی طرف متوجہ کرے گی۔ مسلمان دیکھیں گے کہ سفید بادل چھایاہوا نظر آئے گا اور عیسیٰ علیہ السلام دوزرد چادروں میں ملبوس فرشتوں کے بازوؤں پر سہارادیئے ہوئے ملأاعلیٰ(آسمان) سے اتر تے نظر آئیں گے۔ فرشتے ان کو مسجد کے شرقی منارہ پر اتارکر واپس چلے جائیں گے اور عیسیٰ علیہ السلام کا اس زمین کے ساتھ تعلق دوبارہ قائم ہوجائے گا۔ وہ مینارسے صحن مسجدمیں اترنے کے لیے سیڑھی طلب فرمائیں گے۔ تعمیل ہوگی اور وہ مسلمانوں کے ساتھ صف میں آکھڑے ہوں گے۔
مسلمانوں کا امام(مہدی) از راہ تعظیم پیچھے ہٹ کر ان سے امامت کی درخواست کرے گا۔ آپ فرمائیں گے کہ یہ اقامت آپ کے لئے کیی گئی ہے اس لئے آپ ہی نماز پڑھائیں ۔ اس کے بعد مسلمانوں کی سیاسی قیادت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے ہاتھ آجائے گی اوروہ ہتھیار لے کر مسیح ضلالت(دجّال)کا پیچھاکریں گے اور شہر کی فصیل کے باہر باب لد (لدگیٹ) پر اسے مقابل پائیں گے۔ دجّال سمجھ جائے گا کہ اس کے دجل و فریب اور زندگی کے خاتمہ کا وقت آپہنچا ۔ اس لئے خوف سے وہ رانگ(قلعی) کی طرح گھلنے لگے گا۔ عیسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ کر اسے قتل کردیں گے اور پھر جو یہود دجّال کی رفاقت میں قتل سے بچ جائیں گے وہ، اور سب عیسائی اسلام قبول کرلیں گے اور مسیح ہدایت(عیسیٰ علیہ السلام) کی سچی پیروی کرتے ہوئے مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے نظرآئیںگے۔ اس کا اثرمشرک جماعتوں پر بھی پڑے گا اور اس طرح روئے زمین پر اسلام کے سوا دوسراکوئی مذہب باقی نہیں رہے گا۔ان واقعات کے کچھ عرصہ بعد یاجوج ماجوج کا خروج ہوگا ۔ اور اﷲ کی ہدایت کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام مسلمانوں کو اس فتنہ سے محفوظ رکھیں گے۔مسیح علیہ السلام کادورِحکومت چالیس سال رہے گا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ان کا دورِحکومت سات سال رہے گا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اﷲ نے ان دومختلف روایات میں تطبیق یوں دی ہے کہ جب ان کا رفعِ سماوی ہوا اس وقت ان کی عمر ۳۳ سال تھی۔ اورآسمان سے نزول کے بعد وہ سات سال مزید بقید حیات رہیں گے۔ اس طرح زمین پر ان کی کل عمر چالیس بر س ہوجائے گی۔ واﷲ اعلم۔ بہر حال وہ اس دوران ازدواجی زندگی بسر کریں گے اور ان کے دورِحکومت میں خوش حالی، عدل و انصاف اور خیر و برکت کا عالم یہ ہوگا کہ بکری اور شیر ایک گھاٹ پر بے خوف وخطر پانی پیئیں گے۔ چالیس سالہ دور پوراہونے کے بعد عیسیٰ علیہ السلام اس دارفانی سے رخصت ہوکر نبی ﷺ کے پہلو میں مدفون ہوں گے ۔
0 comments:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔