مرزا غلام احمد قادیانی کی اپنے جھوٹے معجزے یعنی چاند اور سورج گرہن پر پیش کردہ سنن دارقطنی کی حدیث پر جرح و تعدیل ملاحظہ ہو قسط سوم
Monday, 9 December 2013
مرزا غلام احمد قادیانی کی اپنے جھوٹے معجزے یعنی چاند اور سورج گرہن پر پیش کردہ سنن دارقطنی کی حدیث پر جرح و تعدیل ملاحظہ ہو قسط سوم
مرزا غلام احمد قادیانی کی اپنے جھوٹے معجزے یعنی چاند اور سورج گرہن پر پیش کردہ سنن دارقطنی کی حدیث پر جرح و تعدیل ملاحظہ ہو قسط دوم
مرزا غلام احمد قادیانی کی اپنے جھوٹے
معجزے یعنی چاند اور سورج گرہن پر پیش کردہ سنن دارقطنی کی حدیث پر جرح و
تعدیل ملاحظہ ہو قسط دوم
مرزا غلام احمد قادیانی کی اپنے جھوٹے معجزے یعنی چاند اور سورج گرہن پر پیش کردہ سنن دارقطنی کی حدیث پر جرح و تعدیل ملاحظہ ہو قسط اول
مرزا غلام احمد قادیانی کی اپنے جھوٹے معجزے یعنی چاند اور سورج گرہن پر پیش کردہ سنن دارقطنی کی حدیث پر جرح و تعدیل ملاحظہ ہو قسط اول
حیات سیدنا مسیح علیہ السلام، امت مسلمہ کا مسلّمہ عقیدہ
امت مسلمہ کے بنیادی عقائد میں سے ایک مسلمہ عقیدہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو جسد عنصری کے ساتھ زندہ حالت میں آسمانوں کی طرف اٹھالیاتھا۔ وہ چوتھے آسمان پر اسی حالت و کیفیت میں موجود ہیں۔ قیامت سے پہلے جب اﷲ تعالیٰ کو منظور ہوگا آپ زمین پر ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔
پس منظر
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھائے جانے کی وجہ معلوم کرنے کے لیے ہمیں بالاختصار ان کی زندگی کا جائزہ لینا ہوگا۔ تاکہ ساری بات خوب ذہن نشین ہوسکے۔
مختصر احوال
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے جلیل القدر اور اولوالعزم رسولوں میں سے ہیں۔ جس طرح ہمارے رسول محمد ﷺ پوری انسانیت کیلئے خاتم النبین ہیں اسی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام انبیائے بنی اسرائیل کے خاتم النبیین یعنی آخری نبی ہیں۔
خصوصیت
آپ کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے معجزانہ طور پر آپ کو والد کے بغیر صرف بطن مادر سے پیدافرمایا۔
حلیہ مبارکہ
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ معراج کے موقعہ پر میری عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ ان کا قددرمیانہ اور رنگت سرخ وسفید تھی۔ بدن اس قدر صاف اور اجلاتھامعلوم ہوتاتھاکہ ابھی نہاکر فارغ ہوئے ہیں ۔ آپ کی زلفیں کندھوں تک دراز تھیں۔
د ین کی تبلیغ و اشاعت میں انہماک
آپ نے نہ شادی کی اورنہ بودوماند کے لیے گھر بنایا۔ قریہ قریہ، گاؤں گاؤں گھومتے پھرتے، اﷲ کا دین پھیلاتے اور دین حق کی دعوت وتبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے۔ جہاں رات ہوجاتی وہیں کسی سامانِ راحت کے بغیر شب بسر کرلیتے۔
چونکہ ذات اقدس سے اﷲ کی مخلوق کی جسمانی و روحانی شفایابی ہوتی تھی۔ اس لیی آپ جدھر جاتے لوگوں کا انبوہ عقیدت سے جمع ہوجاتا اور وہ والہانہ محبت کے ساتھ ان پر نثار ہونے کو تیاررہتا۔
یہود کی عداو ت اور سازش
یہود کو اس دعوت حق کے ساتھ جو عناد تھا اس نے آپ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو انتہائی حسد اور سخت خطرے کی نگاہ سے دیکھا۔
جب ان کے مسخ شدہ قلوب کسی بھی طرح اسے برداشت نہ کرسکے تو ان کے سرداروں اورمذہبی پیشوائوں نے ان کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ طے پایاکہ ان کے خلاف جیسے بھی ممکن ہو کامیابی حاصل کی جائے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ بادشاہِ وقت کو ان کے خلاف مشتعل کرکے ان کو تختہ دار پر لٹکادیاجائے۔
چنانچہ انہوں نے بادشاہ کے حضور شکایت کی کہ عالی جاہ!
یہ شخص نہ صرف ہمارے مذہب کے لیے بلکہ آپ کی حکومت واقتدار کے لئے بھی خطرے کانشان ہے۔ انہوں نے بہت سی باتیں بناکر بادشاہ کو آمادہ کرلیا کہ مسیح علیہ السلام کو گرفتار کرکے شاہی دربار میں مجرم کی حیثیت سے پیش کیاجائے۔
اب وہ کسی ایسے مناسب موقع کی تاک میں رہنے لگے کہ ان کو کسی خلوت وتنہائی کے ایسے موقع پر گرفتار کیاجائے کہ عام لوگوں میں ہیجان پیدانہ ہو۔ ادھر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کی مخالفت اور ریشہ دوانیوں کا احساس ہوا اور انہیں یقین ہوگیاکہ اب بنی اسرائیل کے کفر و عناد اور مخالفت کی سرگرمیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ وہ میرے قتل کے درپے ہیں۔ تو انہوں نے اپنے حواریوں کو ایک مکان میں جمع کیااور ساری صورت حال ان کے سامنے رکھی اور ان کو بتلایا کہ امتحان کی گھڑی سر پر ہے۔ کڑی آزمائش کا وقت ہے ۔ حق کو مٹانے کی سازشیں عروج پرہیں۔ معلوم ہوتاہے کہ اب میں تمہارے درمیان زیادہ عرصہ نہیں رہ سکوں گا۔
اس لئے میرے بعد دین حق پر استقامت، اس کی نشر و اشاعت اور نصرت کی ذمہ داری تم لوگوں کے ساتھ وابستہ ہونے والی ہے۔ بتلاؤ کہ اﷲ کی راہ میں تم میں سے کون کون وفادار مددگار ہے۔ سب حواریوں نے ایمانی جوش و صداقت سے جواب دیاکہ ہم سب اﷲ کے دین کے وفادار و مددگار ہیں۔ ہم دل کی گہرائیوں سے اﷲ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اپنی ایمانی صداقت پر آپ کو گواہ ٹھہراتے ہیں اور یہ کہنے کے بعد اپنی بات کو یہیں ختم نہیں کردیابلکہ اﷲ تعالیٰ سے بھی دعاکی کہ یااﷲ ! ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں تو ہمیں اس پر استقامت عطافرما ، اور ہمیں اپنے دین کے مددگاروں میں شامل کرلے۔ انہی حالات کی طرف قرآن مجید کی درج ذیل آیات میں اشارہ کیاگیاہے:
فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ آَمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (52) رَبَّنَا آَمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ (53) (آل عمران)
جب عیسیٰ علیہ السلام نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر وانکار پر آمادہ ہیں تو انہوں نے کہا اﷲ کی راہ میں کون میرامددگار ہوگا؟ حواریوں نے جواب دیاکہ ہم ہیں اﷲ کے دین کے مددگار۔ ہم اﷲ پر ایمان لائے،۔ آپ گواہ رہیں کہ ہم اﷲ کے آگے سرجھکانے والے ہیں اے ہمارے رب! تونے جو فرمان نازل کیاہم نے اسے مان لیااور رسول کی پیروی کی۔ تو ہمارے نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔
نیز ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ فَآَمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَتْ طَائِفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آَمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ (14) (الصف)
ترجمہ:۔ ایمان والو! اﷲ کے دین کے مددگاربن جاؤ جس طرح عیسیٰ بن مریم نے اپنے حواریوں سے کہاتھا: کون ہے اﷲ کی طرف بلانے میں میرامددگار؟ حواریوں نے جواب دیاتھا ہم ہیں اﷲ کے دین کے مددگار۔ بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لے آیا اور دوسرے گروہ نے انکار کردیاتھا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمن کے مقابلے میں مددکی اور وہی غالب رہے۔
اﷲ تعالیٰ نے واضح کیاکہ جب یہ لوگ اپنی خفیہ تدبیروں میں سرگرم عمل تھے تب ہم نے بھی اپنی قدرت کا ملہ سے فیصلہ کرلیاکہ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ان مخالفین کی کوئی تدبیر کامیاب نہ ہونے دی جائے گی ۔
جیساکہ ارشاد ہے:
وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (54) (آل عمران)
اور بنی اسرائیل نے عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف خفیہ تدبیریں کیں ۔ ان کے بالمقابل اﷲ تعالیٰ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اﷲ سب سے بڑھ کرہے۔
آخر بنی اسرائیل کے کاہنوں اور سرداروں نے عیسیٰ علیہ السلام کا ایک بند مکان میں محاصرہ کرلیا۔ اس موقع پر اﷲ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو بشارت دی کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں میں آپ کو پوری طرح اپنی حفاظت میں لے لوں گا۔ اور آپ پوری عمر پائیں گے اور یہ لوگ آپ کو قتل نہیں کرسکیں گےاور میں آپ کو کافروں (بنی اسرائیل) کے شر سے محفوظ رکھوں گا اور آپ کی پیروی کرنے والوں کو آپ کے معاندین و مخالفین پر قیامت تک کے لئے غلبہ دوں گا پھر سب کو میری طرف ہی آنا ہے۔ پھر میں ان سب باتوں کے بارے میں فیصلے کردوںگا جن میں آج تم جھگڑ رہے ہو۔
جیساکہ ارشاد ہے:۔
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (55) (آل عمران)
اور جب اﷲ تعالیٰ نے کہا اے عیسیٰ! میں آپ کو پوری طرح اپنی حفاظت میں لینے والا اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور جن لوگوں نے آپ کا انکار کیاہے میں آپ کو ان کی معیت اور ان کے گندے ماحول سے آ پ کو پاک کرنے والاہوں۔ اور آپ کی پیروی کرنے والوں کو قیامت تک ان لوگوں پر بالادست رکھوں گا جنہوں نے آپ کا انکار کیاہے پھر آخر کارتم سب نے میری طرف ہی آناہے اس وقت میں ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن کے متعلق تمہارے درمیان اختلاف رہا۔
حواریین عیسیٰ علیہ السلام کے ان پیروکاروں کو کہاجاتاہے جو ان پر ایمان لائے اور ان کے ساتھی اور مددگار بنے۔ ان کی تعداد ۱۲ بیان کی جاتی ہے (احسن البیان ص:۳۳۶)
یہود کی سازش، اس کی ناکامی اور اﷲتعالیٰ کی خفیہ حفاظتی تدبیر
جب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کویہود کی سازش کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنے حواریوں کو جن کی تعداد ۱۲ یاسترہ تھی جمع کیا اور فرمایا کہ کیا تم میں سے کو ئی میری جگہ قتل ہونے کے لئے تیارہے تاکہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس کی شکل و صورت مجھ جیسی بنادی جائے۔ ایک نوجوان اس کے لیے تیار ہوگیا۔ چنانچہ عیسیٰ علیہ السلام کو وہاں سے اٹھالیاگیا۔ بعد میں یہودی آئے اور انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے ہم شکل اس نوجوان کو لے جاکر سولی پر چڑھادیا۔
یہودی یہ سمجھتے رہے کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو سولی چڑھادیاہے۔ درآں حالیکہ عیسیٰ علیہ السلام وہاں موجود ہی نہ تھے۔ وہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھالئے گئے۔ (تفسیر ابن کثیر ، تفسیر فتح القدیر، تفسیر احسن البیان ص: ۲۷۲ حاشیہ ۲)
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا (157) بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (158) وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (159) (النساء)
(اور ہم نے بنی اسرائیل پر اس لئے بھی لعنت کی کہ) انہوں نے کہا کہ ہم نے مسیح، اﷲ کے رسول عیسیٰ بن مریم کو قتل کردیاہے۔ حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ تو اس کو قتل کیا اور نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ ان پر معاملہ مشتبہ کردیاگیاتھا اور جن لوگوں نے ان کے بارے میں اختلاف کیاہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں۔ اس کے بارے میں ان کے پاس کوئی حتمی علم نہیں ہےبلکہ وہ محض گمان کی پیروی کررہے ہیں۔ یقینا انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیابلکہ اﷲ نے اس کو اپنی طرف اٹھالیا۔ اﷲ زبر دست طاقت رکھنے والا اور صاحب حکمت ہے اور اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جو اس کی یعنی مسیح علیہ السلام کی وفات سے پہلے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے گا اور وہ (مسیح) قیامت کے دن ان لوگوں کے خلاف گواہ ہوگا۔
مولانا مودودوی صاحب رقم طراز ہیں:
کہ ان آیات میں اختلاف کرنے والوں سے عیسائی مرادہیں۔ ان میں مسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے پر کو ئی ایک متفق علیہ قول نہیں ہے بلکہ بیسیوں اقوال ہیں۔ جن کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اصل حقیقت ان کے لئے مشتبہ ہی رہی۔
ان میں سے کوئی کہتاہے کہ صلیب پر جسے چڑھایاگیا وہ مسیح نہ تھا بلکہ مسیح کی شکل میں کوئی اور تھا جسے یہودی اور رومی سپاہی ذلت کے ساتھ صلیب دے رہے تھے اور مسیح وہیں کہیں کھڑا ان کی حماقت پر ہنس رہاتھا۔
کوئی کہتاہے کہ صلیب پر چڑھا یا تو مسیح ہی کو گیاتھا مگر ان کی وفات صلیب پر نہیں ہوئی بلکہ ان کو صلیب سے اتارے جانے کے بعد ان میں جان باقی تھی۔
کوئی کہتاہے کہ انہوں نے صلیب پر وفات پائی۔ پھر وہ جی اٹھے اور کم و بیش دس مرتبہ اپنے مختلف حواریوں سے ملے اور باتیں کیں۔
کوئی کہتاہے کہ صلیب والی موت مسیح کے جسم پر واقع ہوئی اور وہ دفن ہوا مگر الوہیت کی روح جو اس میں تھی وہ اٹھالی گئی۔
کوئی کہتاہے کہ مرنے کے بعد مسیح علیہ السلام جسم سمیت زندہ ہوئے اور جسم سمیت اٹھالئے گئے۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے پاس حقیقت کا علم ہوتا تو اتنی مختلف باتیں ان میں مشہور نہ ہوتیں۔(تفہیم القرآن سورۃالنساء حاشیہ نمبر ۱۹۴)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اﷲ لکھتے ہیں:
"عیسیٰ علیہ السلام کے ہم شکل کو قتل کرنے کے بعد ایک گروہ تو یہ کہتارہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کردیاگیا جب کہ دوسرا گروہ جیسے یہ اندازہ ہوگیاتھا کہ مصلوب شخص عیسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔ وہ ان کے قتل اور مصلوب ہونے کا انکارکرتارہا۔"
بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اوپر جاتے ہوئے دیکھابھی تھا۔
بعض کہتے ہیں کہ ان کے اس اختلاف سے وہ اختلاف مرادہے جو خود عیسائیوں کے نسطورہ فرقے نے کا کہ عیسیٰ علیہ السلام جسم کے لحاظ سے تو سولی دے دیئے گئے لیکن لاہوتی(خدائی) اعتبار سے نہیں۔
ملکانیہ فرقے نے کہا کہ یہ قتل و صلب، ناسوت (انسانی اورجسمانی) اور لاہوت (خدائی) دونوں اعتبار سے مکمل ہواہے۔(فتح القدیر) بہر حال وہ لوگ اختلاف ، تردّد اور شک کے شکار رہے۔ ( احسن البیان ص: ۲۷۲،حاشیہ ۳)
اس ساری تفصیل سے واضح ہوگیاکہ یہودی، عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے یاسولی چڑھانے میں کامیاب نہ ہوسکے(احسن البیان ص: ۲۷۲حاشیہ ۱)
یہ آیات نص صریح ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ حالت میں آسمان پر اٹھالیاتھا۔ (احسن البیان ص: ۲۷۲حاشیہ ۴)
ابورجاء رحمہ اﷲ کا بیان ہے کہ حسن رحمہ اﷲ نے : وَإِن مِّنۡ أَهۡلِ الۡکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤۡمِنَنَّ بِهٖ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
کی تفسیر میں فرمایاکہ: "عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پہلے پہلے تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے اور وہ اس وقت اﷲ تعالیٰ کے ہاں(آسمانوں پر) زندہ موجودہیں۔ جب وہ زمین پر نزول فرماہوں گے تو سب لوگ ان پر ایمان لے آئیں گے۔" (تفسیر ابن کثیر، جلد۱، ص:۵۷۶)
ایک شخص نے حسن بصری رحمہ اﷲ سے دریافت کیاکہ: وَإِن مِّنۡ أَهۡلِ الۡکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤۡمِنَنَّ بِهٖ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ کی تفسیر کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھالیاتھا وہ قیامت سے پہلے ان کو زمین پر بھیجے گا اور پھر سب مومن وفاجر ان پر ایمان لے آئیں گے۔(تفسیر ابن کثیر، جلد ۱ص: ۵۷۶)
عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے کہاہے کہ اگر کسی یہودی پر تلوار کا وار بھی کیاگیاتو جب تک وہ ایمان نہ لائے گا اس کی روح نہ نکلے گی۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد۱ ص:۵۷۶)
نیز سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر اﷲ تعالیٰ نے جو انعامات کئے ان کا ذکر کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ ان سے یہ بھی فرمائے گا :
تُکَلِّمُ النَّاسَ فِیۡ الۡمَهۡدِ وَکَهۡلاً
تو لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتاتھا اور بڑی عمر کو پہنچ کربھی ۔
گہوارے میں آپ کا لوگوں سے بات کرنا خرق عادت اور آپ کا معجزہ تھا۔ کسی کا بڑی عمر میں بات کرنا کوئی اچےبھ کی بات نہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کا بڑی عمر میں لوگوں سے ہم کلام ہونا اور باتیں کرنا اسی صورت میں مختلف ہوسکتاہے کہ آپ مدت مدید کے بعد تشریف لاکر لوگوں سے باتیں کریں۔
عیسیٰ علیہ السلام پر کئے گئے انعامات کے ضمن میں ہی اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے یہ بھی فرمائے گا :
وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنْكَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ (110) (المائده)
اور یاد کرو جب میں نے بنی اسرائیل کے شر سے اور برے ارادوں سے آپ کو محفوظ رکھا جب آپ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تھے تو ان میں سے منکرین حق نے کہاتھا کہ یہ سب جادوگری کے سواکچھ نہیں۔
خلاصۃ المرام ایں کہ اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہودنے اﷲ کے جلیل القدر رسول ، روح اﷲ نبی، المسیح عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے اپنے رسول کو زندہ حالت میں جسد عنصری کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھاکران کو بچا لیااور ان کے دشمن ناکام ونامراد رہے۔ عیسیٰ علیہ السلام سے متعلقہ مذکورۃ الصدر آیات کے مندرجہ ذیل فقرات قابل ملاحظہ ہیں۔
۱۔ مَکْرو وَمَکْرُاﷲِ ۔۔۔لوگوں نے ان کے خلاف سازشیں کیں اور ان کے بالمقابل اﷲ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی۔
۲۔إِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡک ۔ اے عیسیٰ میں آپ کو پوری طرح اپنی حفاظت میں لینے والاہوں۔
۳۔َ وَرَافِعُکَ إِلَیَّ۔ اور آپ کو اپنی طرف اٹھانے والاہوں۔
۴۔ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِيۡنَ کَفَرُوا٘ ۔ آپ کو ان لوگوں کی معیت اور ان کے گندے ماحول سے پاک کرنے والاہوں۔
۵۔ وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ
(اور ہم نے بنی اسرائیل پر اس لئے بھی لعنت کی کہ) انہوں نے کہا کہ ہم نے اﷲ کے رسول مسیح، عیسیٰ بن مریم، کو قتل کردیاہے حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ ان پر معاملہ مشتبہ کردیاگیاتھا۔
۶۔ وَمَا قَتَلُوہُ یَقِیۡناً بَل رَّفَعَهُ الله ُ إِلَیۡهِ۔
ان لوگوں نے یقینا ان کو قتل نہیں کیا بلکہ ان کو تو اﷲ نے اپنی طرف اٹھالیاتھا۔
۷۔ وَکَانَ اللهُ عَزِیۡزاً حَکِیۡماً۔ اور اﷲ زبردست غالب حکمت والاہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ذکرکرنے کے بعد ان الفاظ کا ذکرکرنا واضح ثبوت ہے کہ اس واقعہ سے اﷲ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ اور حکمت بالغہ کا غیر معمولی ظہور ہوا۔
۸- وَإِنۡ مِّنۡ أَهۡلِ الۡکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤۡمِنَنَّ بِهٖ۔۔الخ
اور تمام اہل کتاب مسیح کی وفات سے پہلے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔
۹۔ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِيۡ الۡمَهۡدِ وَکَهۡلاً ۔ تو لوگوں سے گہوارے میں اور بڑی عمر میں پہنچ کر بھی باتیں کرتاتھا۔
۱۰- وَإِذۡکَفَفۡتُ بَنِیۡ إِسۡرَائِیۡلَ عَنک۔
اور یادکرو جب میں نے آپ کو بنی اسرائیل کے شر سے بچایا۔
نیز قران کریم میں ارشاد ہے:
وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (61)
اور یقینا عیسیٰ علیہ السلام (کانزول فرماہونا) علامات قیامت میں سے ہے تم اس (قیامت ) کے بارے میں تردّد نہ کرو اور میری پیروی کرو۔ یہی سیدھا (صحیح ) راستہ ہے۔
اکثر مفسرین کے نزدیک اس کا مطلب ہے کہ قیامت کے قریب ان کا آسمان سے نزول ہوگا۔ جیساکہ صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے ۔ ان کا یہ نزول اس بات کی علامت ہوگاکہ اب قیامت قریب ہے۔ (احسن البیان۔ص:۱۳۹ ، حاشیہ ۱)
قرآن کریم کی یہ تمام آیات نص صریح ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ حالت میں آسمان پر اٹھالیاتھا۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور محمد ﷺ کے احوال میں مناسبت و مشابہت ۔
عیسیٰ علیہ السلام
(۱) عیسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان کی مخالفت اور تکذیب کی ۔
(۲) عیسیٰ علیہ السلام کے معاندین نے ان کو قتل کرنے کی سازش کی اورمکان کا محاصرہ کیا۔
(۳)اﷲ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھا ۔
(۴) عیسیٰ علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے حکم سے زمین سے آسمان کی طرف ہجرت کرگئے۔
(۵)عیسیٰ علیہ السلام اپنی دعوت دنیاتک پہنچا چکے تھے ۔ اس لئے ان کو ہجرت ارضی کے بجائے سماوی ہجرت پیش آئی۔
(۶) عیسیٰ علیہ السلام اپنے دور کے مسیح ضلالت (دجال) کو قتل کریں گے۔
(۷) عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اسی شہر دمشق میں ہوگا جہاں سے اپنی قوم کی سازشوں کے نتیجے میں ان کو سماوی ہجرت پیش آئی تھی۔
محمد رسول اﷲ ﷺ
(۱) محمد ﷺ کی قوم نے بھی ان کی تکذیب کی اور مخالفت میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔
(۲)محمد ﷺ کے ساتھ بھی بعینہٖ یہی صورت حال پیش آئی۔
(۳) اﷲ تعالیٰ نے محمد ﷺ کی بھی مکمل حفاظت فرمائی۔
(۴) محمدﷺ نے بھی اﷲ کے حکم سے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔
(۵)آپﷺ کی بعثت عامہ تھی۔ دین کی تبلیغ کے سلسلہ میں آپ کاکام ابھی باقی تھا اور کرہ ارض پر آپ کا قیام ضروری تھا اس لئے آپ کو مدینہ منورہ کی طرف ارضی ہجرت پیش آئی۔
(۶)آپ نے اپنے مخالف امیہ بن خلف کو اپنے نیزے کے وار سے جہنم رسیدکیا۔
(۷) محمدﷺ کو بھی ہجرت کے بعد فتح مکہ کی صورت میں اپنے وطن پر قدرت وغلبہ عطافرمایاگیاتھا۔
نزول عیسیٰ علیہ السلام ، احادیث کی روشنی میں
(۱) سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے، رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عنقریب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام تمہارے درمیان ایک عادل حکمران کی حیثیت سے نزول فرماہوں گے ۔ وہ صلیب کو توڑ کر (اسکاخاتمہ کر) ڈالیں گے۔ خنزیر کو قتل کردیں گے۔ جزیہ کو ختم کردیں گے۔ اور مال ودولت کی اس قدرریل پیل ہوجائے گی کہ کوئی اسے لینے کو تیار نہ ہوگا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: تم چاہوتو یہ آیت پڑھ کردیکھ لو :
وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (159) (النساء)
اور اھل کتاب میں سے کوئی بھی ایسانہ ہوگا جو اس کی یعنی مسیح علیہ السلام کی وفات سے پہلے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے گا اور وہ (مسیح) قیامت کے دن ان لوگوں کے خلاف گواہ ہوگا ۔ (صحیح البخاری ، کتاب الانبیاء ، حدیث:۳۴۴۸ ۔باب نزول عیسیٰ بن مریم صحیح مسلم، باب بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً)
(۲) سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کابیان ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
" اﷲ کی قسم عیسیٰ بن مریم ایک عادل حکمران کی حیثیت سے تشریف لائیں گے۔ وہ صلیب کو توڑ کر اس کا خاتمہ کردیں گے۔ خنزیر کو قتل کرڈالیں گے، جزیہ کا خاتمہ کردیں گے۔ اونٹوں کا استعمال متروک ہوجائے گا، اوران پر سواری یاباربرداری نہ ہوگی، لوگوں کا آپس میں غصہ، ناراضگی اوربغض وعناد بالکل ختم ہوجائے گا۔ وہ مال و دولت کے لئے لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے تو دولت کی کثرت کی وجہ سے کوئی آدمی دولت لینے کے لئے آمادہ نہ ہوگا۔"(صحیح مسلم، باب بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً)
(۳)سیدنا حذیفہ بن اسید غفاری رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن ہم آپس میں قیامت کے متعلق گفتگو کررہے تھے کہ نبی ﷺ تشریف لائے آپ نے دریافت فرمایا: کیسامذاکرہ ہورہاہے؟ ہم نے عرض کیا کہ ہم قیامت کے متعلق گفتگو کررہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک بپانہ ہوگی جب تک تم اس سے پہلے دس بڑی بڑی نشانیاں نہ دیکھ لوگے۔ آپ نے ان میں سے ایک نشانی ’’نزول عیسیٰ بن مریم علیہما السلام‘‘ بیان فرمائی۔(صحیح مسلم ، کتاب الفتن)
(۴) سیدنا نواس ابن سمعان رضی اﷲ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے کہ دجّال کا فتنہ ظہور پذیر ہوچکا ہوگا اور وہ لوگوں کو شعبدے دکھا دکھاکر اپنی طرف مائل اور کفر میں لے جارہاہوگا۔ اسی دوران اﷲ تعالیٰ مسیح ابن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا ۔ وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارہ پر نزول فرماہوں گے، زرد رنگ کے دوکپڑوں(چادروں) میں ملبوس ہوں گے، اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے کاندھوں پر رکھے ہوں گے ۔ سرکو جھکائیں گے تو پانی کے قطرے گریں گے۔ اور جب سرکو اوپر کی طرف اٹھائیں گے تو اس سے صاف شفاف پانی کے قطرے سفید موتیوں کی طرح نظر آئیں گے۔ ان کی سانس جس کا فر تک جائے گی وہ مرتاچلاجائے گا اور ان کی سانس کی ہوا وہاں تک جائے گا جہاں تک ان کی نگاہ جائے گی ۔ وہ دجّال کا پیچھا کرتے ہوئے اسے (دمشق کی فصیل کے ) ’’باب لُدّ‘‘ کے قریب جاکر قابو کرکے اسے قتل کرڈالیں گے۔(صحیح مسلم، باب ذکر الدجال)
(۵) سیدنا عبداﷲ بن عمروبن العاص رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے رسو ل اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت سے پہلے پہلے دجّال کا ظہور ہوگا۔ وہ چالیس (سال ، مہینے یادن کا و ضاحت نہیں) کا عرصہ گذارے گا۔ اس کے بعد اﷲ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو بھیجے گا۔ ان کا حلیہ عروہ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کا ساہوگا۔ وہ (عیسیٰ علیہ السلام)اس (دجّال) کا پیچھا کرکے اسے قتل کردیں گے۔ اس کے بعد لوگ سات سال کا عرصہ اس قدر خوشی سے گزاریں گے کہ دو آدمیوں کے درمیان بغض وعداوت نہ ہوگی۔(صحیح مسلم، باب ذکرالدجال)
(۶) سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عیسیٰ بن مریم علیہما السلام ’’فج الروحاء‘‘ کے مقام پر حج (افراد) یاعمرہ یادونوں(یعنی حج تمتّع) کا تلبیہ پکاریں گے۔(صحیح مسلم، الحج، باب جواز التمتع فی الحج والقران)
(۷) سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا تم اس وقت کس حال میں ہوگے جب عیسیٰ بن مریم تمہارے درمیان (آسمان) سے نزول فرماہوں گے اورتمہاراامام تم ہی میں سے (یعنی اسی امت کا ایک فرد) ہوگا۔(صحیح مسلم، باب بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً)
(۸)سیدنا جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی ﷺ کو فرماتے سنا کہ میری امت میں قیامت تک ایک ایساگروہ موجود رہے گا جو حق کی خاطر قتال کرتا رہے گا۔ قیامت تک غالب رہے گا۔ تاآنکہ عیسیٰ ابن مریم علیہماالسلام(آسمان سے) نزول فرماہوں گے تو مسلمانوں کا امیر (امام مہدی) ان سے کہے گا کہ آئیں نماز پڑھائیں۔ تو وہ فرمائیں گے کہ نہیں۔ تم ہی میں سے کوئی لوگوں پر امیر (امام) ہوگا۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس امت کو اعزاز دیاجائے گا۔ (صحیح مسلم، بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً)
(۹) سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے (کہ قیامت سے پہلے ایک ایسا وقت آئے گا) کہ لوگ نماز کی صفیں درست کررہے ہوں گے ۔ نماز کے لئے اقامت کہی جائے گی۔ اسی دوران عیسیٰ بن مریم علیہما السلام آسمان سے نزول فرماہوں گے۔ اس وقت امت محمدیہ کے ایک فرد(امام مہدی) نماز پڑھائے گا اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام امت کی قیادت فرمائیں گے۔ انہی دنوں دجّال کا ظہور ہوگا۔ اﷲ کا دشمن (دجّال) انہیں دیکھے گاتو وہ اس طرح پگھلنے لگے گا جیسے پانی میں نمک پگھل جاتاہے ۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام اسے یونہی چھوڑدیں گے تب بھی وہ ہلاک ہوجائے گا۔ تاہم اﷲ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں دجّال کو قتل کرائے گا۔(صحیح مسلم ، کتاب الفتن)
(۱۰) سیدنا عبداﷲ بن عمر و رضی اﷲ عنہما کا بیان ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایاکہ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام زمین پر نزول فرماہوں گے ، نکاح کریں گے، ان کے ہاں اولادہوگی وہ (کُل) پنتالیس سال عمر پائیں گے۔ بعدازاں ان کی وفات ہوگی۔ اور وہ میرے ساتھ میری قبر میں مدفون ہوں گے۔ قیامت کے دن میں اور عیسیٰ علیہ السلام ایک ہی قبر سے ابوبکر و عمر رضی اﷲعنہ کے درمیان اٹھیں گے۔ (الوفاء لابن الجوزی - مشکوٰۃ المصابیح، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام۔حدیث نمبر ۵۵۰۸)
(۱۱) ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا بیان ہے ، میں نے عرض کیا اﷲ کے رسول! میراخیال ہے کہ میں آپ کے بعد کچھ عرصہ زندہ رہوں گی تو کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ مجھے آپ کے پہلو میں دفن کردیاجائے ؟ آپ نے فرمایا میں تمہیں اس کی اجازت کیسے دے سکتاہوں۔ وہاں تو میری، ابوبکر ، عمر ، عیسیٰ ابن مریم علیہماالسلام کی قبور ہی کی جگہ ہوگی۔ (منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد جلد۶ص:۵۷)
(۱۲) سیدنا عبد اﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ تورات میں محمد ﷺ کی صفات کے ضمن میں یہ بھی مکتوب ہے کہ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام ان کے قریب مدفون ہوں گے۔ ابومودود(راوی) نے بیان کیاکہ بیت عائشہ رضی اﷲ عنہا میں ایک قبر کی جگہ اب بھی باقی ہے۔ (جامع ترمذی مع تحفۃ الاحوذی جلد۴ ص: ۲۹۵ کتاب لمناقب باب۳)
(۱۳) سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا: انبیاء ان بھائیوں کی طرح ہیں جن کے باپ ایک اورمائیں مختلف ہوں۔ بنیادی طور پر ان سب کا دین ایک ہی ہے۔ میں باقی لوگوں کی نسبت عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام کے قریب ترہوں۔ کیونکہ ان کے اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں۔ وہ (دوبارہ) دنیا میں آنے والے ہیں۔ تم انہیں دیکھتے ہی پہچان لوگے۔ ان کا قددرمیانہ، رنگ سرخی مائل گوراہوگا ، وہ زرد لباس میں ملبوس ہوں گے، یوں محسوس ہوگا کہ ان کے سرسے پانی کے قطرے گررہے ہیں اگرچہ اسے پانی نہ لگا ہوگا، وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے، جزیہ کا خاتمہ کردیں گے اور لوگوں کو حقیقی دین اسلام کی طرف بلائیں گے اﷲ تعالیٰ ان کے زمانے میں (ان ہی کے ہاتھوں ) دجّال کا خاتمہ کرے گا۔ زمین پر مکمل امن، سکون ہوگااور اس قدرآسودگی ہوگی کہ شیر اور اونٹ، چیتے اور گائے، بھیڑ اور بکریاں بے خوف وخطر اکٹھے چرتے ہوں گے، بچے سانپوں کے ساتھ کھیلتے ہوں گے اور سانپ ان کو کچھ بھی نہ کہیں گے ۔ عیسیٰ علیہ السلام زمین پر چالیس برس گزاریں گے اس کے بعد ان کی وفات ہوگی ، مسلمان ان کی نماز جنازہ اداکریں گے اور پھر ان کی تدفین عمل میں آئے گی۔(تفسیر ابن کثیر جلد۱ ص:۵۷۸ ۔سنن ابی داؤد ، الفتح الربانی ترتیب مسند احمدجلد۱۹ ص: ۱۴۳ مسنداحمد جلد ۲ ص: ۴۳۷)
خلاصہ :
علامات قیامت میں سے ایک بڑی علامت مسیح ہدایت سیدنا عیسییٰ مسیح علیہ السلام کا ملأ اعلیٰ سے نزول ہے جس کی تفصیلات یہ ہیں۔
مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان سخت معرکہ جنگ بپاہوگا۔ مسلمانوں کی قیادت وامامت رسول ﷺ میں سے محمد بن عبداﷲ نامی ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہوگی جس کا لقب(مہدی) ہوگا۔ اس معرکہ آرائی کے دوران ہی مسیح ضلالت (دجّال) کا خروج ہوگا۔ یہ نسلاً یہودی اورشکلاً یک چشم ہوگا۔ کرشمۂ قدرت سے اس کی پیشانی پر’’ ک ف ر ‘‘ یعنی کافر لکھاہواہوگا جسے اہل ایمان اپنی ایمانی فراست سے پڑھیں گے اور اس کے دجل وفریب سے آگاہ ہوکر اس سے محتاط رہیں گے۔ وہ اوّلاً خدائی کا دعویٰ کرے گا اور شعبدہ بازوں کی طرح شعبدے دکھاکرلوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے گا مگر اس سلسلہ کو کامیاب نہ دیکھ کر کچھ عرصہ بعد مسیح ہدایت(عیسیٰ علیہ السلام) ہونے کا مدعی ہوگا۔ یہ دیکھ کریہودی تو بکثرت بلکہ قومی حیثیت سے اس کے پیروکار ہوجائیں گے۔ اور اس کی وجہ یہ ہوگی کہ یہودی مسیح ہدایت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کرکے ان کے قتل کا ادعا کرچکے ہیں اور مسیح ہدایت کی آمد کے آج تک منتظر ہیں۔ اسی حالت میں ایک روز دمشق(شام) کی جامع مسجد میں مسلمان منہ اندھیرے یعنی نماز فجر کے وقت نماز کے لئے جمع ہوں گے ، نماز کی اقامت ہورہی ہوگی۔ اورامام مہدی موعود امامت کے لئے مصلّی پر پہنچ چکے ہوں گےکہ اچانک ایک آواز سب کو اپنی طرف متوجہ کرے گی۔ مسلمان دیکھیں گے کہ سفید بادل چھایاہوا نظر آئے گا اور عیسیٰ علیہ السلام دوزرد چادروں میں ملبوس فرشتوں کے بازوؤں پر سہارادیئے ہوئے ملأاعلیٰ(آسمان) سے اتر تے نظر آئیں گے۔ فرشتے ان کو مسجد کے شرقی منارہ پر اتارکر واپس چلے جائیں گے اور عیسیٰ علیہ السلام کا اس زمین کے ساتھ تعلق دوبارہ قائم ہوجائے گا۔ وہ مینارسے صحن مسجدمیں اترنے کے لیے سیڑھی طلب فرمائیں گے۔ تعمیل ہوگی اور وہ مسلمانوں کے ساتھ صف میں آکھڑے ہوں گے۔
مسلمانوں کا امام(مہدی) از راہ تعظیم پیچھے ہٹ کر ان سے امامت کی درخواست کرے گا۔ آپ فرمائیں گے کہ یہ اقامت آپ کے لئے کیی گئی ہے اس لئے آپ ہی نماز پڑھائیں ۔ اس کے بعد مسلمانوں کی سیاسی قیادت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے ہاتھ آجائے گی اوروہ ہتھیار لے کر مسیح ضلالت(دجّال)کا پیچھاکریں گے اور شہر کی فصیل کے باہر باب لد (لدگیٹ) پر اسے مقابل پائیں گے۔ دجّال سمجھ جائے گا کہ اس کے دجل و فریب اور زندگی کے خاتمہ کا وقت آپہنچا ۔ اس لئے خوف سے وہ رانگ(قلعی) کی طرح گھلنے لگے گا۔ عیسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ کر اسے قتل کردیں گے اور پھر جو یہود دجّال کی رفاقت میں قتل سے بچ جائیں گے وہ، اور سب عیسائی اسلام قبول کرلیں گے اور مسیح ہدایت(عیسیٰ علیہ السلام) کی سچی پیروی کرتے ہوئے مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے نظرآئیںگے۔ اس کا اثرمشرک جماعتوں پر بھی پڑے گا اور اس طرح روئے زمین پر اسلام کے سوا دوسراکوئی مذہب باقی نہیں رہے گا۔ان واقعات کے کچھ عرصہ بعد یاجوج ماجوج کا خروج ہوگا ۔ اور اﷲ کی ہدایت کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام مسلمانوں کو اس فتنہ سے محفوظ رکھیں گے۔مسیح علیہ السلام کادورِحکومت چالیس سال رہے گا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ان کا دورِحکومت سات سال رہے گا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اﷲ نے ان دومختلف روایات میں تطبیق یوں دی ہے کہ جب ان کا رفعِ سماوی ہوا اس وقت ان کی عمر ۳۳ سال تھی۔ اورآسمان سے نزول کے بعد وہ سات سال مزید بقید حیات رہیں گے۔ اس طرح زمین پر ان کی کل عمر چالیس بر س ہوجائے گی۔ واﷲ اعلم۔ بہر حال وہ اس دوران ازدواجی زندگی بسر کریں گے اور ان کے دورِحکومت میں خوش حالی، عدل و انصاف اور خیر و برکت کا عالم یہ ہوگا کہ بکری اور شیر ایک گھاٹ پر بے خوف وخطر پانی پیئیں گے۔ چالیس سالہ دور پوراہونے کے بعد عیسیٰ علیہ السلام اس دارفانی سے رخصت ہوکر نبی ﷺ کے پہلو میں مدفون ہوں گے ۔
نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے قائلین سے چند سوال
عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ نزول نبی و رسول کی حیثیت سے ہوگا یا امتی کی حیثیت سے؟
2۔اگر عیسیٰ علیہ السلام ایک
امتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے تو کیا کسی امتی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ
سارے اہل کتاب اور غیر مسلموں سے کہے کہ مجھ پر ایمان لاؤ؟
3۔قرآنِ حکیم میں جہاں ساری
انسانیت اور اہل کتاب کو دعوتِ اسلام دی گئی ہے کیاوہاں یہ بات ان سے کہی
گئی ہے کہ تم ایک امتی (عیسیٰ علیہ السلام) پر بھی ایمان لانا؟
4۔ کیا قرآن و حدیث میں یہ لکھا
ہوا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بطور امتی ہوگا؟ % عیسیٰ علیہ
السلام کو دوبارہ نزول کے وقت ’’ نبی ‘‘ کی بجائے ’’ امتی ‘‘ ماننے سے ان
کی نبوت کا انکار تو لازم نہیں آئے گا؟ (کیونکہ بزبان عیسیٰ علیہ السلام
قرآنِ حکیم میں سورۂ مریم آیت نمبر: ۳۰ میں ہے وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا اور اس (اللہ ) نے مجھے نبی بنایا ہے۔‘‘
5۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام نبی
اور رسول کی حیثیت سے آئیں گے تو اس وقت آخری نبی عیسیٰ علیہ السلام ہوں
گے یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم؟ کیا محمد ﷺ کی بعثت کے بعد بھی کس نبی یا
رسول کی ضرورت ہے؟
6۔ اگر تمام انبیاء علیہم السلام کے آخر میں آنے والی ہستی عیسیٰ علیہ السلام کو مانا جائے تو محمدﷺ کے اس فرمان کا: «فَإِنِّیْ آخِرُ الْأَنْبِیَاء لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ» ’’میں تمام نبیوں کے آخر پر ہوں اور میرے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘ کا کیا معنی و مفہوم ہوگا؟
7۔عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں
پر اٹھایا جانا اور وہاں صدیوں رہنا اور پھر زمین پر نزول فرمانا اللہ کی
نعمتوں میں سے ہے یا نہیں؟ ( اگر نعمتوں میں سے ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت
کے دن عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی نعمتیں یاد کرائے گا۔ ان نعمتوں میں
عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں پر اٹھایا جانا، پھر زمین پر نزول فرمانے کا
کوئی ذکر نہیں ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ ) کیا (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ
اتنی بڑی نعمت کا ذکر کرنا بھول گئے ہیں یا آسمانوں پر اٹھایا جانے کا
واقعہ ہی رونما نہیں ہوا ہے؟
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ:
محمدﷺخاتم النبیین ہیں، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے
ذریعے تمام انبیاء علیہم السلام کے سلسلے کو ختم اور بند کردیا ہے۔ اب
عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بطور امتی یا نبی نہیں ہوگا۔ آپa سے پہلے تمام
انبیاء علیہم السلام وفات پاچکے ہیں، جن میں عیسیٰ علیہ السلام بھی شامل
ہیں۔ نزول مسیح علیہ السلام کا عقیدہ ہر لحاظ سے عیسائیوں کا عقیدہ ہے جو
منظم سازش سے مسلمانوں میں پھیلایا گیا ہے۔
____________________________________________________________
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔ مسیح عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول نبی، رسول اور محمد رسول اللہ a کے امتی کی حیثیت سے ہوگا۔ قرآنِ مجید میں ہے:
﴿إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّـهِ﴾ ( النسآء)
’’ مسیح عیسیٰ ابن مریم (علیہ
السلام) تو صرف اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور اس کے حکم ہیں، جسے مریم
(علیہا السلام) کی طرف ڈال دیا اور اس کے پاس کی روح ہیں، اس لیے تم اللہ
کو اور اس کے سب رسولوں کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں، اس سے باز
آجاؤ کہ تمہارے لیے بہتری ہے۔‘‘
نیز قرآنِ مجید میں ہے:
﴿ مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ﴾ (المائدۃ)
’’مسیح ابن مریم سوائے پیغمبر
ہونے کے اور کچھ بھی نہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوچکے ہیں، اس کی
والدہ ایک راست باز عورت تھیں، دونوں ماں بیٹے کھانا کھایا کرتے تھے۔‘‘
نیز قرآنِ مجید میں ہے:
﴿قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّـهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا﴾ (مریم)
’’ آپ نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے اپنا پیغمبر بنایا ہے۔ ‘‘
اور قرآنِ مجید میں ہے:
﴿وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ (٨١) فَمَن تَوَلَّىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (٨٢)﴾ (آل عمران)
’’ جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے
عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت دوں، پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے
جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس
کی مدد کرنا ضروری ہے۔ فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے
رہے ہو، سب نے کہا ہمیں اقرار ہے۔ فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی
تمہارے ساتھ گوا ہوں میں ہوں پس اس کے بعد بھی جو پلٹ جائے وہ یقینا پورے
نافرمان ہیں۔‘‘
2۔ پہلے سوال کے جواب میں گزر
چکا ہے کہ مسیح عیسیٰ علیہ السلام کا نزول نبی، رسول اور محمد رسول اللہﷺے
امتی کی حیثیت سے ہوگا، لہٰذا یہ سوال ’’ کیا امتی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ
سارے اہل کتاب اور غیر مسلموں سے کہے کہ مجھ پر ایمان لاؤ؟ ‘‘ بنتا ہی
نہیں، کیونکہ مسیح عیسیٰ علیہ السلام امتی ہونے کے ساتھ ساتھ رسول و نبی
بھی ہیں۔ بطور مثال ہارون علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام کے امتی بھی ہیں
اور رسول و پیغمبر بھی۔ لوط علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام کے امتی بھی
ہیں اور رسول و پیغمبر بھی۔ تو مسیح علیہ السلام، محمد رسول اللہ a کے
امتی بھی ہیں اور رسول و پیغمبر بھی۔ تو ان کا لوگوں کو اپنے آپ پر ایمان
لانے کی دعوت دینا ،رسول و پیغمبر کی حیثیت سے ہے۔
3۔اس سوال کا جواب نمبر: (۱) اور نمبر: (۲) میں بیان ہوچکا ہے۔
4۔اس کا جواب نمبر: (۱) میں گزر چکا ہے۔
5۔مسیح عیسیٰ علیہ السلام کے
نزول کے وقت ان کو امتی ماننے سے ان کے رسول و نبی ہونے کا انکار لازم نہیں
آتا، جیسا کہ ان کو رسول و نبی ماننے سے ان کے امتی ہونے کا انکار لازم
نہیں آتا۔ دیکھئے لوط علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام کے امتی ہیں۔ قرآنِ
مجید میں ہے: ﴿فَآمَنْ لَهُ لُوْطٌ ﴾
[العنکبوت:۲۶] ’’ پس ابراہیم علیہ السلام پر لوط علیہ السلام ایمان
لائے۔‘‘ تو اب اس سے لوط علیہ السلام کے رسول و نبی ہونے کا انکار لازم
نہیں آتا، تو مسیح علیہ السلام بوقت نزول امتی ہونے کے ساتھ ساتھ رسول و
نبی بھی ہیں، بلکہ فی الحال بھی وہ رسول و نبی اور امتی ہیں۔
سائل نے پہلے سوال میں ’’
دوبارہ نزول ‘‘ لکھا ہے، اب کے پانچویں سوال میں بھی ’’ دوبارہ نزول ‘‘
لکھا ہے، حالانکہ یہ بالکل غلط ہے ، کیونکہ مسیح علیہ السلام کا آسمان سے
نزول صرف ایک بارہ ہے دوبارہ نہیں۔
6- مسیح علیہ السلام کو رسالت و نبوت محمد رسول اللہﷺ سے تقریباً پانچ چھ سو سال پہلے ملی ہے۔قرآنِ مجید میں ہے:
﴿قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا (٢٩) قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّـهِ﴾ (مریم)
’’ سب کہنے لگے کہ لو بھلا ہم گود کے بچے سے باتیں کیسے کریں؟ بچہ بول اٹھا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں۔‘‘ ] الایۃ۔
نیز قرآنِ مجید میں ہے:
﴿وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ (٦)﴾ (الصّف)
’’ اور جب کہا مریم کے بیٹے
عیسیٰ نے اے بنی اسرائیل! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ مجھ سے پہلے
کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول
کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں ، جن کا نام احمد ہے۔ ‘‘الآیۃ۔
تو مسیح علیہ السلام نزول فرمائیں گے تو اس وقت بھی آخری نبی محمد رسول اللہ a ہی ہوں گے، کیونکہ مسیح علیہ السلام فرمارہے ہیں:
﴿وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ﴾
تو نبی کریمﷺکے بعد نئے سرے سے
کسی نبی و رسول کی بعثت کی تو کوئی ضرورت نہیں۔ ہاں! نبی کریمﷺ کے بعد پہلے
نبی و رسول مسیح علیہ السلام کو آپ ﷺ کی تائید و تصدیق کے لیے اور فساد و
فتنہ کی سرکوبی کی خاطر نازل کرنے کی ضرورت ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم
میں رسول اللہ ﷺ کافرمان ہے:
« لَیُوشِکَنَّ اَنْ یَنْزِلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلاً»(الحدیث)
( صحیح البخاری ؍ کتاب احادیث الانبیاء ؍ باب نزول عیسٰی ابن مریم علیہماالسلام)
[ ’’ عنقریب اتریں گے تم میں ابن مریم حاکم منصف۔‘‘ ]
7۔اس کا جواب نمبر: (۶) میں گزر چکا ہے۔ دیکھئے: «إِنَّه لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔ »
(بخاری ؍ کتاب الانبیاء ؍ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل ، مسلم ؍ کتاب
الامارۃ ؍ باب الامر بالوفاء ببیعۃ الخلفاء) ’’ میرے بعد کوئی نبی نہ
ہوگا۔‘‘
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے اور «لَیُوشِکَنَّ اَنْ یَنْزِلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ» بھی نبی کریم |ﷺ کا ہی فرمان ہے دونوں میں کوئی منافاۃ نہیں، کیونکہ مسیح علیہ السلام نے فرمایا ہے:﴿وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ﴾ تو : «إِنَّه لاَ نَبِیَّ بَعْدِی» کا معنی و مفہوم مسیح علیہ السلام نے ﴿وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ﴾ فرماکر بیان کردیا ہے ان کے اس بیان کے بعد کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں۔
8۔ نعمتوں میں سے ہے۔( معلوم ہے
مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بغیر باپ پیدا فرمانا ، اللہ تعالیٰ
کی نعمتوں سے ہے۔ تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مسیح عیسیٰ علیہ السلام کو
اپنی نعمتیں یاد کرائے گا، ان نعمتوں میں مسیح علیہ السلام کے بغیر باپ
پیدا کیے جانے کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ سائل اس کی جو وجہ
بیان کرے گا ، وہی یا اس سے ملتی جلتی وجہ مسیح علیہ السلام کے رفع إلی
السماء اور نزول من السماء کی آپ بیان کرسکتے ہیں۔ پھر رفع و نزول کے اس
خاص مقام پر ذکر نہ ہونے سے ان کی نفی نہیں نکلتی ،جیسا کہ اس خاص مقام پر
ولادتِ مسیح علیہ السلام بغیر باپ کا بھی ذکر نہیں تو اس سے اس کی نفی تو
نہیں نکلتی۔ پھر اس آیت کریمہ
﴿اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ﴾ (المائدۃ)
’’ اے عیسیٰ ابن مریم! میرا
انعام یاد کرو ، جو تم پر اور تمہاری والدہ پر ہوا ہے۔‘‘ میں مریم علیہا
السلام پر نعمتوں کا ذکر بھی ہے، مگر آگے جو نعمتیں بیان ہوئیں ان میں
زکریا علیہ السلام کے ان کے کفیل بننے اور رزق ملنے والی نعمتوں نیز اصطفاء
علی العالمین والی نعمت کا کوئی ذکر نہیں اس کی کیا وجہ؟ کیا یہ نعمتیں
نہیں تھیں۔ نیز اسی آیت کریمہ میں ہے: ﴿تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهدِ وَکَهلًا﴾ مہد میں کلام کرنے کا تو قرآنِ مجید میں ذکر ہے ، جیسا کہ آیت:﴿ قَالَ إِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ ﴾
الخ ،میں گزر چکا ہے اور سن کہولت میں مسیح علیہ السلام کا انسانوں کے
ساتھ کلام کرنا آج تک ثابت نہیں ہوسکا تو لا محالہ نزول کے بعد سنِ کہولت
میں وہ انسانوں کے ساتھ کلام کریں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام و خبر
دینا: ﴿تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهدِ وَکَهلًا﴾ صدق و حق ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے:
﴿وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّـهِ حَدِيثًا﴾ [النساء)
اور ایک مقام پر ہے:
﴿وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّـهِ قِيلًا﴾ (النساء)
ورنہ لازم آئے گا کہ اللہ
تعالیٰ کا کلام و خبر دینا واقع کے مطابق نہ ہو اور یہ لازم محال و باطل
ہے۔ ) اس سوال کے انداز کو لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے ، اللہ تعالیٰ
مسیح علیہ السلام کو ان پر اور ان کی والدہ پر اپنی نعمتیں قیامت کے دن یاد
کرائے گا ان نعمتوں میں مسیح علیہ السلام کے بغیر باپ پیدا کیے جانے، ان
کی والدہ کے اصطفاء علی العالمین، انہیں رزق ملنے اور زکریا علیہ السلام کے
ان کے کفیل بنائے جانے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ
اتنی بڑی نعمتوں کا ذکر کرنا بھول گئے ہیں یا یہ نعمتیں واقع ہی میں رونما
نہیں ہوئیں؟ تو سائل جو جواب دے وہی یا اس سے ملتا جلتا جواب رفع و نزول کا
آپ دے لیں۔ تو بھول والی بات کوئی نہیں۔ قرآنِ مجید میں ہے:﴿لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسٰی﴾ ( طہ:۵۲)
اور ایک مقام پر ہے:﴿وَمَا کَانَ رَبُّك نَسِیًّا﴾ بلکہ نعمتی در آیت:﴿اُذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْك﴾
[مریم)الخ، میں مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ پر تمام نعمتیں ذکر
ہوگئی ہیں، خواہ اس مقام پر بعد میں ان کا ذکر آیا ہے ، خواہ ذکر نہیں آیا۔
تو مسیح علیہ السلام کا رفع إلی اللہ تعالیٰ اور نزول دونوں ثابت ہیں۔
قرانِ مجید میں ہے:
﴿بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ ﴾ (النسآء)
’’ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا ہے۔‘‘
نیز قرآنِ مجید میں ہے: (وَرَافِعُك إِلَیَّ﴾ (آل عمران)
’’ اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘
صحیح مسلم میں ہے:
حَدَّثَنَا
قُتَیْبة بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ: نَالَیْثٌ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ
سَعِیْدٍ عَنْ عَطَاء بْنِ مِیْنَاء عَنْ أَبِیْ هھرَیْرَة قَالَ: قَالَ
رَسُولُ اللّٰہِﷺ: وَاللّٰہِ لَیَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا
عَادِلاً(الحدیث)
’’ اللہ کی قسم! ابن مریم ضرور ضرور اتریں گے حاکم عادل۔‘‘ نیز صحیح مسلم میں ہے:
حَدَّثَنَا
الْوَلِیْدُ بْنُ شُجَاعٍ وَهارُوْنُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، وَحَجَّاجُ
بْنُ الشَّاعِرِ قَالُوْا: نَا حَجَّاجٌ وَهوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ
جُرَیْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِیْ أبُو الزُّبَیْرِ أَنَّه سَمِعَ جَابِرَ
بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُولُ: سَمِعتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: لاَ تَزَالُ طَائِفَة مِنْ أُمَّتِي یُقَاتِلُوْنَ
عَلى الْحَقِّ ظَاھِرِیْنَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَة قَالَ: فَیَنْزِلُ
عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ، فَیَقُوْلُ أَمِیْرُهمْ
(الحدیث) ( صحیح مسلم ؍ کتاب الایمان ؍ باب نزول عیسیٰ ابن مریم حاکماً بشریعۃ نبینا محمد ﷺ)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ ہمیشہ
رہے گی، ایک جماعت میری امت سے حق پر قتال کرتے رہیں گے غالب قیامت کے دن
تک۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے تو ان کے امیر کہیں گے،
آؤ ہمیں نماز پڑھاؤ تو عیسیٰ ابن مریم فرمائیں گے، نہیں بے شک بعض تمہارا
بعض پر امیر ہے۔ اس امت کو اللہ تعالیٰ کے مکرم کرنے کی وجہ سے۔‘‘
تو حقیقت یہ ہے کہ محمد رسول
اللہﷺ خاتم النبیین ہیں۔ آخر الأنبیاء ہیں ، جس کا واضح مطلب ہے کہ اللہ
تعالیٰ نے آپﷺ پر تمام انبیاء علیہم السلام کے سلسلے کو ختم اور بند کردیا
ہے۔ آپﷺ کے بعد اللہ تعالیٰ کسی کو نبوت و رسالت عطا نہیں فرمائے گا۔ باقی
رہے مسیح علیہ السلام تو ان کو اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت محمد رسول اللہ
ﷺ سے پہلے عطا فرمائی ہے، آپ کے بعدمسیح علیہ السلام کے نزول کے وقت ان کو
اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت عطا نہیں فرمائی۔ خود مسیح علیہ السلام
فرماتے ہیں:
﴿ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ ﴾ الآیة
تو مسیح عیسیٰ علیہ السلام کا
نزول پہلے نبی و رسول اور حالاً امتی کی حیثیت سے ہوگا۔ محمد رسول اللہ ﷺ
سمیت تمام انبیاء علیہم السلام وفات پاچکے ہیں، جن میں مسیح عیسیٰ علیہ
السلام شامل نہیں، کیونکہ وہ اللہ کی طرف اٹھالیے گئے ہیں اور نزول فرمائیں
گے۔ چند منٹ کے لیے بالفرض تسلیم کرلیا جائے کہ مسیح علیہ السلام بھی نبی
کریمﷺ سے پہلے وفات پاگئے تھے ، پھر بھی وہ نزول ضرور فرمائیں گے، کیونکہ
رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھاکر ان کے نزول کو بیان فرمایا ہے۔
دیکھئے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے ستر ساتھیوں پر موت طاری کردی،
پھر ان کو زندہ کرکے دنیا میں واپس لوٹادیا، اسی طرح ایک بستی پر گزرنے
والے پرسو برس موت وارد کردی ، پھر زندہ فرماکر دنیا میں لوٹادیا۔ نیز موت
کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں بستی چھوڑنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے موت دے
دی، پھر انہیں زندہ فرمادیا۔ تو مسیح بالفرض اگر فوت شدہ ہی تسلیم کرلیے
جائیں ، قرب قیامت اللہ تعالیٰ انہیں ضرور نازل فرمائیں گے۔
﴿إِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ﴾ (البقرة)«وَالله لَینْزِلَنَّ ابْنُ مَرْیَمَ»
تو نزول مسیح علیہ السلام کا عقیدہ ہر لحاظ سے اہل اسلام کاعقیدہ ہے رسول
اللہ ﷺ نے اس کو حلفاً بیان فرمایا ہے۔ باقی کچھ عیسائی بھی نزول کے قائل
ہیں تو درست ہے ، کیونکہ عقیدہ حق ہے، سب عیسائیوں کو یہ عقیدہ اپنانا
چاہیے اس کی مثال یوں سمجھیں کہ کچھ عیسائی عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح علیہ
السلام اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔ وہ اللہ یا الٰہ یا اللہ کے بیٹے
نہیں تو ان کا یہ عقیدہ درست ہے تمام عیسائیوں کو یہ عقیدہ اپنانا چاہیے۔
اب اس کا مطلب یہ تو نہیں نکلتا ، چونکہ کچھ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے ،
لہٰذا اہل اسلام کو یہ عقیدہ نہیں اپنانا چاہیے ، کیونکہ عیسائی یہ عقیدہ
رکھتے ہیں۔ دیکھئے عیسائی بلکہ یہودی بھی موسیٰ علیہ السلام ، اسحاق علیہ
السلام اور ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کے نبی و رسول مانتے ہیں، ان کی
رسالت و نبوت کا عقیدہ رکھتے ہیں تو اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ان
انبیاء علیہم السلام کی نبوت و رسالت کا عقیدہ نہیں رکھتا، کیونکہ یہودی
عیسائی ان کی نبوت و رسالت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کسی مسلم کو
یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کہے میں نزولِ مسیح علیہ السلام کا عقیدہ نہیں
رکھتا ، کیونکہ عیسائی نزول مسیح کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
رہی یہ بات کہ: ’’ منظم سازش سے
مسلمانوں میں عیسائیوں کا یہ عقیدہ پھیلایا گیا ہے۔‘‘ تو وہ بالکل ہی بے
بنیاد ہے، جس طرح یہ بات بے بنیاد ہے کہ مسیح علیہ السلام کی رسالت و نبوت
کے عقیدہ اور ان کے کلمۃ اللہ ہونے کے عقیدہ کے متعلق کہنا کہ یہ ہر لحاظ
سے عیسائیوں کا عقیدہ ہے جو منظم سازش سے مسلمانوں میں پھیلایا گیا ہے۔
تو اصول یہ ہے عیسائی یایہودی
یا کوئی اور قوم ایک عقیدہ رکھتی ہے اور وہ عقیدہ کتاب و سنت کے موافق ہے ،
کتاب و سنت میں اس عقیدہ کی تائید و تصدیق اور تاکید موجود ہے تو وہ عقیدہ
اپنائیں گے ، اس پر یقین رکھیں گے تو نزولِ مسیح علیہ السلام والے عقیدہ
کی کتاب و سنت نے تائید و تصدیق اور تاکید کی ہے اس لیے ہم اس کو اپنائیں
گے یہ نہیں کہیں گے: ’’ نزولِ مسیح علیہ السلام کا عقیدہ ہر لحاظ سے
عیسائیوں کا عقیدہ ہے۔ جو منظم… الخ ‘‘
دیکھئے سائل لکھتا ہے: ’’ تمام
انبیاء علیہم السلام وفات پاچکے ہیں جن میں عیسیٰ علیہ السلام بھی شامل
ہیں۔‘‘ اب کوئی کہے کہ: ’’ وفات مسیح علیہ السلام کا عقیدہ ہر لحاظ سے
عیسائیوں کا عقیدہ ہے، جو منظم سازش سے مسلمانوں میں پھیلایا گیا ہے۔‘‘ تو
سائل کا کیا جواب ہوگا؟
پھر سائل لکھتا ہے: ’’ آپ ﷺ سے
پہلے تمام انبیاء علیہم السلام وفات پاچکے ہیں۔ الخ ‘‘ تو سائل کے نزدیک آپ
ﷺ نے وفات نہیں پائی ، حالانکہ قرآنِ مجید میں صریح آیت کریمہ ہے: ﴿إِنَّك مَیِّتٌ وَّاِنَّھُمْ مَّیِّتُوْنَ﴾ واللہ اعلم۔
حیاتِ مسیح اور نزولِ مسیح علیہ
السلام کے متعلق تفصیل درکار ہو تو ہمارے شیخ کے شیخ حافظ محمد ابراہیم
صاحب میر سیالکوٹی … رحمہما اللہ تعالیٰ… کی مایۂ ناز کتاب عظیم ’’ شہادۃ
القرآن ‘‘ کا مطالعہ فرمالیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کے متعلق شرعی عقیدہ کیا ہے؟
سوال:
حضرت
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کے متعلق جمہور اہل اسلام کا کیا
عقیدہ ہے نیز قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں اس مسئلہ کا بیان کیسے ہے؟
جواب:
عالم اسلام کے جمہور علماء کا روز اول سے یہ مسلک رہا ہے اور الحمد للہ آج بھی
وہ اس پر قائم ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی اور
رسول ہیں جو بنی اسرائیل کی اصلاح و ہدایت کے لیے مبعوث کئے گئے۔ ان کی پیدائش بھی
معجزہ کے طور پر ہوئی، اور وہ جسم اور روح کے ساتھ آسمان پر زندہ اٹھا لیے گئے اور
قرب قیامت کی علامت کبریٰ کے طور پر دوبارہ آسمان سے زمین پر اتریں گے، یہ بات نفس
الامر کے طور پر دلیل قطعی ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کی حیات قرآن مجید سے ثابت ہے اور اس کی توضیح تائید میں احادیث متواترہ کا ایک
ذخیرہ موجود ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام کے حوالے سے قرآن مجید میں درج ذیل آیات مبارکہ ملاحظہ
ہوں۔
فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ
أَنصَارِي إِلَى اللّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللّهِ آمَنَّا
بِاللّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ o رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنزَلْتَ
وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ o وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ
اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ o إِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسَى إِنِّي
مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ
وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِلَى يَوْمِ
الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ
فِيهِ تَخْتَلِفُونَ o
(آل عمران، 3 : 52 تا 55)
پھر جب عیسٰی (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کیا تو اس
نے کہا: اﷲ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم
اﷲ (کے دین) کے مددگار ہیں، ہم اﷲ پر ایمان لائے ہیں، اور آپ گواہ رہیں کہ ہم
یقیناً مسلمان ہیںo اے ہمارے رب! ہم اس کتاب پر ایمان لائے جو تو نے نازل فرمائی
اور ہم نے اس رسول کی اتباع کی سو ہمیں (حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لےo
پھر (یہودی) کافروں نے (عیسٰی علیہ السلام کے قتل کے لئے) خفیہ سازش کی اور اﷲ نے
(عیسٰی علیہ السلام کو بچانے کے لئے) مخفی تدبیر فرمائی، اور اﷲ سب سے بہتر مخفی
تدبیر فرمانے والا ہےo جب اﷲ نے فرمایا: اے عیسٰی! بیشک میں تمہیں پوری عمر تک
پہنچانے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں
سے نجات دلانے والا ہوں اور تمہارے پیروکاروں کو (ان) کافروں پر قیامت تک برتری
دینے والا ہوں، پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے سو جن باتوں میں تم جھگڑتے تھے
میں تمہارے درمیان ان کا فیصلہ کر دوں گاo
احادیث مبارکہ میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت ثانیہ کے حوالے سے ذکر
آیا ہے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے،
عنقریب تم میں ابن مریم اتریں گے، جو انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے، صلیب کو
توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کر دیں گے، اور اس وقت مال اتنا زیادہ
ہوجائے گا کہ اسے کوئی بھی قبول نہ کرے گا۔
(بخاری، مسلم، صحاح ستة، کتاب الايمان، باب نزول عيسی ابن
مريم، کتاب الفتن)
اسی طرح بہت سی احادیث کی کتب میں حضرت عیسی کی بعثت ثانی کے حوالے سے احادیث
مذکور ہیں۔ احادیث میں موجود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشن گوئیوں
کے مطابق قرب قیامت حضرت عیسیٰ دوبارہ اس حال میں زندہ تشریف لائیں گے کہ آپ نے
اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہونگے، نماز فجر کے وقت دمشق کی مشرقی
جانب جامع مسجد میں آپ کا نزول ہوگا۔ دجال کا قتل آپ کے ہاتھوں ہوگا۔ آپ کی شادی
اور اولاد ہوگی،
بالآخر کل نفس ذائقۃ الموت کے تحت آپ کا طبعی وصال ہوگا اور تاجدار کائنات کے
پہلو میں گنبد خضریٰ کے اندر آپ کو دفن کیا جائے گا۔ امت مسلمہ کا اجماعی اور متفق
علیہ عقیدہ قرآن اور حدیث کے مطابق یہ ہے کہ حضرت عیسٰی کی طبعی وفات نہیں ہوئی اور
وہ آسمان سے زندہ زمین پر اتریں گے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)